حضور صلی اللہ علیہ وسلم فضیلت و کمال میں مظہرِ اتم

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی

اللہ رب العزت کلام مجید کے سورۂ احزاب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرماتے ہیںجس کا ترجمہ یہ ہے ’’نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مومنوں کے نزدیک انکی اپنی جانوں سے زیادہ اولیٰ (سب سے زیادہ بہتر) ہیں‘‘۔ (الاحزاب، پارۂ اکیس، آیت ۶) سرکار دوعالَم صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات رب ذوالجلال اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ مقرب نبی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام انبیاء ِعظام علیہم الصلوۃ والسلام کے تمام محامد، خصائص، محاسن اور شمائل آقائے دوجہاں حضور علیہ الحیۃ والثناء کی ذات مقدسہ میں اس طرح سے جمع کردئیے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اکمل اور افضل کا معیارِ آخر قرار پائے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال، حسن کا معیار بھی حضور علیہ التحیۃ والثناء کی ذات بابرکت ہے۔ جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہے، پس ائے رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان کے سب طریقوں کی پیروی کریں‘‘ (الانعام، اٰیت۹۰)۔

مذکورہ اٰیت شریفہ میں ہدایت کا جو ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد انبیاء عظام کے سابقہ شرعی احکام نہیں ہے کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہوچکے ہیں، بلکہ یہاں ہدایت سے مراد اخلاق کریمانہ اور کمالات پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ تمام کمالات اور امتیازات جو انبیاء عظام کو عطا کئے گئے تھے وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم جملہ کمالاتِ نبوت کے جامع قرار پائے۔

ابھی ذکر کی گئی اٰیت شریفہ کے تحت حضرت امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ الباری تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں ’’اہل علم نے اِس اٰیت شریفہ سے استدلال کیا ہے کہ ہمارے رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء عظام علیہم الصلوۃ والسلام سے افضل ہیں‘‘۔ (تفسیر کبیر)

شفیع المذنبین حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن اور محامد کے پیش نظر حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ الباری تحریر فرماتے ہیں ’’ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محاسن اس طرح جامعیت کے مظہر ہیں کہ کسی بھی تقابل کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی محاسن و محامد کو ترجیح حاصل ہوگی‘‘ (سفرالسعادت)

چنانچہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ الباری ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں ’’ دیگر انبیاء کے کمالات محدود و متعین ہیں، مگر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات، محاسن و محامد کی کوئی حد متعین نہیں ہے، بلکہ ان کمالات تک کسی کے خیال کی پرواز ہی ممکن نہیں‘‘۔ (محدث دہلوی، مرج البحرین)

سیدالعرب والعجم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ حسن و کمالات کا سرچشمہ ہے، صحابۂ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات و محاسن کو بڑے بہترین انداز میں پیش کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

٭ حضرت سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ایک رات چاند پورے عروج پر تھا اور ادھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاندپر، پس میرے نزدیک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے،، (ترمذی شریف)

٭ حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ’’میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا‘‘۔ (مسلم شریف)

٭ حضرت انس اور حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مجموعی جسمانی حسن کے لحاظ سے) یوں معلوم ہوتے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں‘‘۔ (بیہقی)

ان تمام باتوں کو تحریر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے زیادہ حسین اور جمیل ہیں جنکا مقابلہ نہ کوئی پچھلے زمانہ میں کرسکا اور نہ قیامت تک کوئی کرسکے گا۔ اسی لئے سب لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ضرور بہ ضرور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک احوال کو بار بار پڑھتے رہیں تاکہ اس کے ذریعہ ہماری زندگیوں میں انقلاب پیدا ہوجائے، اور دنیا و آخرت میں کامیابی و سرفرازی نصیب ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔
zubairhashmi7@gmail.com