حضور رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

مولانا محبوب عالم اشرفی

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے قبل عربوں میں بڑی بد امنی پائی جاتی تھی، لوگ افراط و تفریط کے شکار تھے، غلاموں کو جانوروں کی طرح خرید و فروخت کیا جاتا تھا،ان کی حیثیت گھر کے ساز و سامان یا کسی کارخانے اثاثوں سے زیادہ نہ تھی۔ انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں، دن رات ان سے کام لیا جاتا تھا، غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا، توہین و تحقیر ان کا مقدر بن چکی تھی، معاشرے میں ان کا کوئی مقام نہ تھا۔ آمد مصطفیﷺ کی بہار نے عربوں کے ظلمت کدہ کو امن و سکون کا گہوارہ بنا دے، رحمت عالم ﷺ کی آغوش رحمت نے ان غلاموں کو اپنی آغوش میں جگہ دی، ان کے سروں پر دست شفقت رکھا اور زمانۂ جاہلیت کے تمام غلط رسومات وفرسودہ خیالات کا خاتمہ فرمادیا۔ غلاموں کو آزاد کرنے پر جنت کی خوش خبری سنائی، ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی، ہمدردی و مساوات کا درس دے کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو آزادی کامژدۂ جانفزاں سنایا، آقا اور غلام کو ایک ہی صف میں لاکر کھڑا کردیا۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔

جب تک حضرت بلال حبشی غلام تھے ستائے گئے، جب رحمت عالم ﷺ کی خدمت میں آئے تو عشق الہٰی و عشق مصطفیٰﷺ کے جام سے اس قدر سیراب ہوئے اور ایسی بلندی پر پہنچے کہ رحمت عالمﷺ نے کعبہ کی چھت پر چڑھا کر ان سے صدائے حق بلند کرایا۔ اس طرح آپﷺ نے رنگ و نسل کے سارے بتوں کو پاش پاش کردیا۔ حضور اقدسﷺ نے جہالت کی وادیوں میں گھری ہوئی انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن فرمایا۔ امیر و غریب، آقا و غلام، گورے و کالے اور عربی و عجمی سبھی کو ایک صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔ رحمت عالمﷺ کے رحمت آفریں ارشادات و پیغامات نے لوگوں کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا، جس کا نتیجہ یہ ہواکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی عظیم شخصیت نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو آقا کہہ کر پکارا اوران کی عزت و توقیر کی۔ رحمت عالمﷺ کی رحمت ہی کا فیض تھا کہ حضرت فاروق اعظم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو خود پیدل چل رہے تھے اورغلام کو اپنی سواری پر سوار کئے ہوئے تھے۔

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے غلام کو ماررہے تھے تو انہیں پیچھے سے آواز سنائی دی ’’ابومسعود! تم جان لو کہ اللہ کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے، جتنا تمہیں اس پر ہے‘‘۔ حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو حضور سید عالم ﷺ تھے۔ عرض کیا ’’یارسول اللہ! میں نے اسے اللہ کی رضا کے لئے آزاد کر دیا‘‘۔ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمہیں جہنم کی آگ چھو لیتی‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، ترمذی، کتاب الید)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا ’’یا رسول اللہ! ہم اپنے خادموں سے کہاں تک در گزر کریں؟‘‘۔ آپﷺ خاموش رہے۔ اس نے پھر اپنا سوال دُہرایا، لیکن آپﷺ پھر خاموش رہے۔ اس نے تیسری بار جب اپنا سوال دہرایا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے روزانہ ستر بار معاف کرو‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الادب)
حضو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کنیزوں اور غلاموں سے بہت ہمدردی تھی، آپﷺ اپنے گھر کی کنیزوں اور غلاموں سے اولاد جیسا برتاؤ کرتے تھے۔ ایک دن آپﷺ نے ایک گھر میں ایک غلام کو دیکھا کہ چکی سے آٹا پیس رہا ہے اور رورہا ہے۔ حضورﷺ اس کے پاس گئے اور دریافت فرمایا ’’تو کیوں رو رہا ہے؟‘‘۔ غلام نے عرض کیا ’’میں بہت بیمار ہوں، چکی مجھ سے نہیں چل سکتی، مگر آقا کے ظلم کے سبب آٹا پیسنا پڑتا ہے‘‘۔ آپﷺ اس کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا ’’تم ہٹ جاؤ میں تمہارا آٹا پیس دیتا ہوں‘‘۔ غلام نے عرض کیا ’’آپ کون ہیں اور یہ ہمدردی کیوں کر رہے ہیں؟‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں خدا کاغلام ہوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیماروں کی مدد کروں‘‘۔ یہ کہہ کر غلام کی چکی چلانی شروع کی اور آٹا پیس دیا۔ پھر فرمایا ’’میرا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، تمھیں پھر کبھی ضرورت ہو تو مجھے بلا لینا، میں تیرا آٹا پیس دوںگا‘‘۔ غلام نے کہا ’’کیا آپ وہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، جن کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ اللہ کے رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟‘‘۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ہاں میں وہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں‘‘۔ یہ سن کر غلام نے فوراً کلمہ پڑھا اور عرض کیا ’’میں آپ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں‘‘۔

اب غلامی کا دور تو نہیں رہا، لیکن بھلائی و خیر خواہی اور ہمدردی و رواداری کا اجر و ثواب باقی ہے۔ اب دین اسلام ایسا معاشرہ چاہتا ہے، جہاں افراط و تفریط کی بجائے عدل ومساوات، نفرت و عداوت کی بجائے محبت و الفت ہو، بددیانتی و بدامنی کی بجائے خیر خواہی و ایمانداری ہو، حقوق العباد سے کنارہ کشی کی بجائے حقوق العباد کی ادائیگی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی تعلیمات کے ذریعہ دعوتِ عمل عطا فرمایا، تاکہ ہماری آخرت سنور جائے اور اپنے انقلاب آفریں پیغام کے ذریعہ ہماری کامیابی و کامرانی کی مکمل ضمانت دی، مگر کیا کیا جائے اس حرماں نصیبی کا کہ ہم نے اسے چھوڑ دیاہے۔ آج مالدار اپنے ملازمین کو ذاتی غلام سمجھتے ہیںاور ان کی توہین و تحقیر پر اُتر آتے ہیں۔کارخانوں اور فیکٹروں کے مالک اپنے مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں، انہیں اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر ان پر ظلم کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے ہیں۔

ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کیا ایسا کرنا اخلاقی اور معاشرتی جرم نہیں ہے؟۔ جو مذہب مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے، وہ کسی مزدور کا حق مارنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟۔ لوگوں کے حقوق کی حفاظت اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ حقدار کو اس کا حق دیا جائے، سرمایہ دار نوکروں کے ساتھ ہمدردی ورواداری کا سلوک کریں، طاقتور کمزوروں پر ظلم نہ کریں، کارخانوں کے مالک اپنے ملازم کو حقیر نہ سمجھیں۔ جو لوگ کمزور کا حق دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق پامال نہیں کرتے، صحیح معنوں میں وہی لوگ مومن اور صاحب ایمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں غریبوں، یتیموں، مزدوروں، بیکسوں اور بیوائوں کے ساتھ حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔
٭٭٭