حضور اکرم ﷺ کے قدسی صفات والدین

مرسلہ: نوری فاطمہ
حضرت عبد المطلب کے بیٹے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم حضرت عبد اللہ اور آپ کی پھوپھی ام حکیم البیضاء جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ حضرت عبد اللہ اپنے باپ کے بڑے لاڈلے اور محبوب بیٹے تھے۔ وہ حسن سیرت اور حسن صورت کے حسین امتزاج تھے۔ ان کے اخلاق حمیدہ، اوصاف جمیلہ اور پاکبازی کا پورے مکہ میں شہرہ تھا۔ اٹھارہ سال (اور بعض نے پچیس سال یا کم و بیش بھی لکھا ہے) کی عمر میں حضرت عبد المطلب نے بنوزہرہ کی نیک اور پاکباز خاتون حضرت آمنہ بنت وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ سے حضرت عبد اللہ کا نکاح کردیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت آمنہ کے دادا عبد مناف اور حضرت عبد المطلب کے دادا عبدمناف دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ اول الذکر عبدمناف بن زہرہ ہیں اور ثانی الذکر عبد مناف بن قصی ہے۔ قصی اور زہرہ دونوں بھائی اور کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب کے بیٹے ہیں، یوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ددھیال اور ننھیال دونوں کلاب بن مرہ پر باہم مل جاتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دادی کا نام فاطمہ اور نانی کا برہ بنت عبد العزی بن عثمان تھا۔ آپ کے نانا وہب بن عبد مناف کی والدہ کا نام ہند بنت ابی قیلہ (وجز) بن غالب تھا (انساب الاشراف،۱:۱۹) آپ کے نانا وہب بنوزہرہ کے نامور اور معزز سردار تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ طہارت نفس، شرافت نسب، عزت و وجاہت، عفت و عصمت اور پاکبازی میں بے مثال تھیں اور اپنی قوم میں سیدۃ النساء کے لقب سے مشہور تھیں۔ بقول ابن کثیر ’’حضرت آمنہ اس وقت اپنی قوم میں عورتوں کی سردار تھیں‘‘ (السیرۃ النبویہ،۱:۷۷۱) اور بقول الطبری ’’حضرت آمنہ اپنے زمانے میں قریش کی سب سے زیادہ فضیلت مآب اور محترم خاتون تھیں‘‘ (تاریخ،۲:۴۷۱) الغرض ددھیال اور ننھیال دونوں کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے بہترین قبیلے اور بہترین قوم میں سے تھے۔
نکاح کے بعد حضرت عبد اللہ قریش کے دستور کے مطابق چند روز اپنے سسرال میں رہنے کے بعد سیدہ آمنہ کو لے کر اپنے گھر چلے آئے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبد اللہ تجارت کے سلسلے میں قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ ملک شام گئے اور غزہ سے واپس گھر آرہے تھے کہ راستے میں بیمار ہو گئے۔ راستے میں یثرب (مدینہ منورہ) پڑتا تھا اور وہاں ان کے والد حضرت عبد المطلب کے رشتہ دار (اخوال) بنو عدی بن النجار رہتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بحالت بیماری ان کے ہاں ٹھہر گئے۔ قافلہ والوں نے مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت عبد المطلب کو حضرت عبد اللہ کی علالت اور مدینہ میں رک جانے کے بارے میں اطلاع دی۔ حضرت عبد المطلب نے اپنے بڑے بیٹے حارث کو حضرت عبد اللہ کے پاس مدینہ منورہ بھیجا۔ حارث بڑی تیزی سے منزلیں طے کرتے ہوئے مدینہ پہنچے تو بنو عدی بن النجار نے انھیں حضرت عبد اللہ کی علالت کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور یہ کہ انھیں دارالنابغہ میں دفن کیا گیا ہے۔ حارث نے واپس مکہ آکر اپنے والد کو حالات سے آگاہ کیا۔
پردیس میں جوان بیٹے کی موت نے سردار قریش حضرت عبد المطلب کو مغموم کردیا۔ حضرت عبد اللہ کی وفات سے سارا خاندان رنج و ملال اور غم و اندوہ کا شکار ہو گیا۔ حسن صورت اور حسن سیرت کا مجسمہ، جس سے شادی کرنے کے لئے مکہ کی کئی خواتین بے قرار تھیں، دنیا سے اچانک عالم شباب میں رخصت ہو گیا۔ سیدہ آمنہ پر یہ اندوہناک اور دلخراش خبر سن کر کیا گزری ہوگی؟ جن کا رفیق زندگی شادی کے چند ماہ بعد ہی انھیں ہمیشہ کے لئے غمزدہ اور افسردہ چھوڑ گیا، مگر سیدہ آمنہ صبر و رضا اور ہمت و استقامت کا پیکر تھیں۔ اللہ تعالی نے انھیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں ہونے کا شرف بخشا تھا، لہذا راضی برضائے الہی ہوکر صبر و شکر کی مثال بن گئیں۔ حضرت عبد اللہ کی وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پدائش سے تقریباً سات ماہ قبل ہوئی۔ وفات کے وقت حضرت عبد اللہ کی عمر اٹھارہ برس تھی، مگر الواقدی نے پچیس سال لکھا ہے (الطبقات،۱:۹۹۔ ابن الجوزی، الوفاء،۱: ۹۸) کتب سیر میں ایسی روایات بھی موجود ہیں، جو حضرت عبد اللہ کی وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بعد (باختلاف مدت) بیان کرتی ہیں (البلاذری: انساب الاشراف،۱:۲۹۔ الطبری،۱:۸۹) ابن سعد نے الطبقات میں مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد وفات قبل از ولادت ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔