حضور اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار اعظم

مولانا حبیب عبدالرحمن بن حامد الحامد
یوں تو دنیا میں بہت سے فاتح بھی آئے اور مفتوح بھی لیکن پروردگار عالم نے جو خوبیاں اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو عطا کیں کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے پہلے تیرہ سالہ مکی زندگی میں صحابہ کے ایمان و یقین کو مکمل کیا۔ سوائے دو اقعات کے مکہ کی سرزمین پر خون خرابہ نہ ہوا ۔ ایک تو حضرت حمزہؓ کا ابوجہل پر حملہ کرکے زخمی کرنا ، دوسرے حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا نماز میں خلل ڈالنے والے مشرکوں میں سے ایک مشرک کو اونٹ کی ایک ہڈی سے زخمی کرنا ۔ یہ دور تھا مظلومی میں صبر کرنے کا ۔
اور جب ۱۲ صفر ۲ ہجری کو احکاماتِ خداوندی نازل ہوئے اور بتلایا گیا کہ اب ظلم و زیادتی برداشت نہ کی جائے بلکہ مقابلہ کیا جائے ۔ ان احکامات کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے جنگی کاروائیوں میں حصہ لیا۔ یہ حضور ؐ کا مدنی دور ہے جس میں دو ہجری سے آٹھ ہجری تک آپؐ جنگوں میں مصروف رہے ۔ جو جنگ میں حضور اکرم ﷺ بہ نفس نفیس شریک رہے وہ غزوہ اور جس میں مجاہدین کو روانہ کرتے وہ سریہ کہلاتی ہے ۔
اس طرح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے جن جنگوں میں یا غزوات میں بحیثیت سپہ سالاری کے فرائض انجام دیئے ان کی تعداد ۲۷ ہے۔ اور اﷲ رب العزت نے ہر مرحلہ اور غزوہ میں کامیابیوں سے نوازا اور آپ ؐہر غزوے میں کچھ نہ کچھ نمایاں کام انجام دیتے رہے ۔
غزوۂ بدر میں حضور اکرم ﷺ نے دشمن کی عسکری طاقت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی چھوٹی سی جماعت کے ساتھ مقابلہ کیا اور صحابہ کو ہدایتیں دیںکہ جنگ میں اپنی طرف سے پہل نہ کرنا ، دشمن دور ہوں تو پتھروں سے ، قریب آنے پر تیروں سے اور قریب آنے پر نیزوں سے اور دو بدو ہو تو تلواروں سے مقابلہ کریں۔ عورتوں اور بچوں کو نہ مارا جائے ۔ جو مقابلے کیلئے آئے اس سے ہی مقابلہ کیا جائے ۔ پھر آپ ؐ نے صف بندی کروائی جس کی ابتداء مسلمانوں کو نماز ہی کی حالت میں سکھائی گئی تھی ۔ جنگ بدر میں پہلی مرتبہ صف بندی ہوئی جس کا دشمن تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ اس سے پہلے جنگ کی یہ حالت ہوتی جو جس کے سامنے آجاتا اس سے لڑائی ہوتی ۔

اس جنگ میں حضور نے ہواؤں کاخیال رکھا ، اس لئے کہ مخالف ہوا تیروں کو ضائع نہ کرے ، سورج کی شعاعوں کا بھی خیال رکھا گیا کہ کہیں آنکھیں چندیا نہ جائیں اور کامیابی حاصل کی ۔
غزوۂ اُحد میں دشمن کے حرکات اور سکنات سے باخبر رہنا ۔ ان کی عسکری طاقت سے واقفیت حاصل کرنا ۔ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کرنا ۔ کم عمر بچوں کو جنگ میں شریک نہ کرنا ، میدان کارزار کا انتخاب کرنا ۔ احد پہاڑ کو پیچھے رکھنا تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرے اور شہر مدینہ کو سامنے رکھنا کہ اگر دشمن اہل مدینہ کی عورتوں اور بچوں کو کوئی نقصان پہنچائے تو میدان کارزار سے ہی اس کو دیکھ لینا اور فیصلہ کرتے ہوئے اس کا سدباب کرنا ۔
غزوۂ خندق سے پہلے ان کی تیاریوں سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کرنا اور خندق کی کھدائی کرتے ہوئے دشمن کی طاقت کو توڑنا تاکہ دشمن کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔
صلح حدیبیہ میں دشمن مسلمانوں کی طاقت سے مرعوب ہوکر معاہدہ کرنے کیلئے آنا اور معاہدہ کرنا ۔
خیبر کے محاصرے کے بعد مقابلہ میں نئے ہتھیار منجنیخوںسے جو دبابے کی شکل میں قلعوں میں دراڑ ڈالنے کا کام کرتی ہیں استعمال کرنا ۔
فتح مکہ میں اپنی عسکری طاقت کو اتنا زیادہ کردینا کہ دشمن ہتھیار اُٹھانے کی جرأت بھی نہ کرے ۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کی معاشی ناکہ بندی بھی کرنا ۔ نہ صرف یہ بلکہ صحابہ کرام و مجاہدین کو اپنے خیموں کے سامنے آگ کے الاو دو دو جگہ لگانے کا حکم دینا تاکہ دشمن مجاہدین کی تعداد کا اندازہ ہی نہ لگاسکے ۔

غزوہ تبوک میں دشمن کے مقام تک پہنچ کر آمادہ جنگ کرنا لیکن دشمن مقابلہ کیلئے باوجود تعداد سامان جنگ رکھنے کہ نہ آسکا جس سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا  اور سارے لوگ جو اس وقت رومیوں سے مرعوب تھے مسلمانوں کی صف میں آنے لگے ۔
آپ اقوام عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایسا (حضور اکرم ﷺ جیسا ) سپہ سالار نظر نہ آئے گا بلکہ دو ایک جنگ میں کامیابی ہوگی اور بس !
مگر ۲۷ ستائیس جنگوں کی قیادت اور سپہ سالاری کرنے والے فاتح اعظم پر نظر ڈالیں تو صرف کامیابی ہی کامیابی نظر آئے گی ۔ اس لئے کہ ایک سپہ سالار میں جو خوبیاں ہونی چاہئے وہ یہ ہے :عورتوں اور بچوں ، بوڑھوں ، بیماروں کو قتل نہ کیا جائے ۔ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے ، نہ ان کا مال لوٹا جائے ، جو مقابلہ میں نہ آئے اُن پر حملہ نہ کیا جائے ۔
سپہ سالار سب سے قوی ہو ، میدان کارزار سے واقف ہو ۔مشورہ طلب کرنے والاہو ، مشورے پر عمل کرنے والا ہو ، فوری فیصلہ کرنے والا ہو ، دشمن اگر صلح کرنا چاہے تو فوری معاہدہ ہو ، دشمن کی طاقت کا اندازہ کرنے والا ہو ، جدید ہتھیاروں سے واقف ہو اور چلانے کی صلاحیت رکھنے والا ہو اور اﷲ رب العزت نے اپنے حبیب کو ان تمام نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ یہ مقابلہ میں استقامت کی ایک جھلک ہے اور جب کامیابی اور کامرانی حاصل ہوگئی تو پھر عفو اور درگذر سے اپنے دشمنوں کو معاف کرنا یہ حضور اکرم ؐ کی زندگی کا سب سے زیادہ نمایاں باب ہے ۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ وہ پتھر دل انسان موم بن کر پگھلنے لگے اور اسلام چاردانگ عالم میں پھیل گیا ۔ اس کے بعد آپؐ کے جانشینوں نے بھی اس پر عمل کیا اور اپنی علحدہ تاریخ بنوائی ۔