حضرت نعمان بن ثابت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ

سیدزبیرھاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ

۸۰ تا ۱۵۰ ہجری
امام اعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ تاریخ اسلام کا وہ باب ہیں جس کے بغیرکاملیت کاتصورنہیںکیاجاسکتا۔ آپ امام ا لأئمہ،مجتہدمطلق اورامام المحدثین ہیں۔آپ بشارت مصطفی ﷺکے مصداق اکمل ہیں۔تدوین قانونِ اسلامی کاسہرا آپ کے سرجاتاہے۔امت اسلام کاسواداعظم آپ کامقلد اورپیروہے۔
ولادت: اسی(۸۰)ہجری مطابق چھ سونناوے (۶۹۹)عیسوی میںہوئی۔ولادت کایہ وہ متبرک زمانہ ہے کہ جس میںبہت سے صحابہ موجودتھے مگرآفتاب وجودصحابہ غروب ہونے کوتھا ۔ آپ کے تابعی ہونے میںکوئی شک نہیںہے جیسا کہ تذکرۃ الحفاظ میںامام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ابوحنیفہ نے انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کوکئی باردیکھاہے جس سے امام صاحب کاتابعی ہوناثابت ہے۔ اورعلوم وفنون حاصل کئے ہیں۔محدثین کی ایک کثیرجماعت نے آپ کی روایات کوقبول کیاہے۔ آپ کے کئی خصوصیات ہیں جن میںسے چندیہاں بیان کئے جاتے ہیں جس کوبڑے خوبصورت انداز میں حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ حافظ محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ نظامیہ حقیقۃ الفقہ جلداول میں تحریرفرماتے ہیں،ملاحظہ فرمائیے۔
فقہ کی مستحکم بنیاد : امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے دیکھاکہ جب تک اُس کے قواعدمقررنہ کئے جائیںتب تک فقہ کی بنیاد مستحکم نہیں ہوسکتی اس لئے قرآن وُحدیث اورصحابہ کے طریقۂ عمل اورلغت وغیرہ سے مددلیکراس کے قواعداوراصول مقررکئے ،جن سے فن اصول فقہ مدون ہوا ، اور ان کے ذریعہ سے قرآن وُحدیث سے مسائل استنباط کئے۔ امام أعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق مزیدوضاحت لکھی جارہی ہے:
٭ سب سے پہلے جس نے فقہ کومدون کیااورأبواب وُکتب کوترتیب دیا وہ امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔
٭ امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کو فقہ کی توفیق دی گئی جس کی وجہ سے ان کواس پرمشقت نہ رہی۔
٭ نضرابن محمدکہتے ہیںکہ میرے گمان غالب میںیہی ہے کہ امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ اسی لئے پیداکئے گئے ۔ اگروہ نہ ہوتے توبہت ساعلم کم ہوجاتا۔
٭ نضرابن شمیل کہتے ہیںکہ لوگ فقہ سے خواب غفلت میںتھے امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے ان کو بیدار کیا ہے۔
٭ أبومعاویہ ضریرکہتے ہیںکہ علم کے طریقہ کی بنیاد ڈالنے والے امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔
٭ عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیںکہ آپ تبحرعلمی کے ماہرہیں۔
٭ ابوعصمہ کہتے ہیںکہ جوشخص امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ سے بے پروائی کی وہ جاہل ہے ۔یعنی ہرعالم ان کے علم کامحتاج ہے۔
٭ یحیٰ ابن آدم کہتے ہیںکہ امام أعظم أبوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ فقہ میںایسااجتہادکئے کہ ان سے پہلے کسی نے نہیںکیاتھا اس لئے اﷲتعالی نے ان کو راستہ دکھلادیااورآسان کردیا اور لوگوں میں خاص وُعام ہردوفائدہ اٹھارہے ہیں۔
امام صاحب کی فراست: ایک شخص کے گھر میں چند چور گھس آئے۔ گھر والے کی آنکھ کھل گئی اور اُس نے چوروں کو دیکھ اور پہچان لیا۔ چوروں نے اس ڈر سے کہ کہیں یہ شخص صبح میں ہمیں پکڑوا نہ دے، اسے دبوچ لیا اور اس سے کہا کہ ’’تم یوں کہو کہ اگر میں نے کسی کو بتایا کہ ان لوگوں نے میرے گھر چوری کی ہے تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘۔ گھر کا مالک بے چارہ مجبور تھا، اس نے یہ حلف اُٹھا لیا اور کہہ دیا کہ ’’اگر میں کسی کو بتاؤں کہ ان لوگوں نے میرے گھر میں چوری کی ہے تو میری بیوی پر تین طلاق‘‘۔
چور یہ کہلواکر اس شخص کا مال و اسباب لے کر چلے گئے۔ جب صبح ہوئی تو وہ شخص چوروں کو دیکھتا رہا، مگر حلف بالطلاق کی وجہ سے بول نہیں سکتا تھا۔ آخر وہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوا اور پورا واقعہ سناکر کہنے لگا کہ ’’حضور! چوروں کو اچھی طرح پہچانتا ہوں، مگر وہ ظالم مجھ سے یہ قسم لے چکے ہیں کہ اگر میں کسی کو بتاؤں کہ ان لوگوں نے میرے گھر چوری کی ہے تو میری بیوی پر تین طلاق‘‘۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے محلہ کے معزز اور ذی جاہ لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ اس بے چارے کے معاملے میں مدد کریں اور شہر کے جتنے بدچلن اور متہم لوگ ہیں، ان کو ایک حویلی میں جمع کریں۔ پھر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس شخص سے جس کے گھر چوری ہوئی تھی، فرمایا کہ تم ہمارے ساتھ دروازے پر کھڑے ہو جاؤ، ہم ایک ایک شخص کو باہر کرتے جائیں گے اور تم سے پوچھتے جائیں گے کہ ’’کیا یہ ہے تمہارا چور؟‘‘۔ اگر وہ چور نہ ہو تو تم ’’نہیں‘‘ کہتے رہنا اور اگر وہ چور ہو تو چپ ہو جانا، کچھ مت کہنا، کیونکہ تمہاری قسم یہ ہے کہ اگر میں بتاؤں کہ ان لوگوں نے میرے گھر چوری کی ہے تو میری بیوی پر تین طلاق۔ اس شخص نے کہا ’’بہت اچھا‘‘۔ چنانچہ حویلی سے ایک ایک شخص کو نکالا جانے لگا اور ہر شخص کے متعلق اس سے پوچھا جانے لگا کہ ’’کیا یہ ہے تمہارا چور؟‘‘ تو وہ سب کے متعلق ’’نہیں‘‘ کہتا رہا اور جب اس کا چور سامنے آجاتا تو وہ چپ ہو جاتا اور لوگ اُسے پکڑ لیتے۔ اس طرح سارے چور پکڑے گئے اور وہ شخص طلاق کی مشکل سے بھی بچ گیا۔ (لطائف علمیہ کتاب الاذکیا۔ امام ابن جوزی)
اسی طرح حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک پڑوسی کا کسی نے مور چرا لیا، تو وہ پڑوسی حضرت امام اعظم کے پاس آیا اور اپنے مور کی چوری کا ذکر کیا۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پڑوسی کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور پھر آپ مسجد میں تشریف لائے۔ جب سب لوگ نماز کیلئے جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا ’’کیا وہ شخص جو اپنے پڑوسی کا مور چراتا ہے، اُسے شرم نہیں آتی کہ مور چراتا ہے اور پھر آکر نماز اس حال میں پڑھتا ہے کہ اس کے سرپر مور کے پر کا اثر ہوتا ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی ایک شخص نے اپنا سر چھپا لیا، جسے دیکھ کر حضرت امام اعظم نے فرمایا ’’توہی مور کا چور ہے، لہذا اس شخص کا مور اس کو واپس کردو‘‘۔ اس شخص نے اسی وقت مور لاکر واپس کردیا۔ (الخیرات الحسان)
واضح رہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کی ایسی فراست عطا فرمائی تھی کہ آپ مشکل سے مشکل مسئلہ پل بھر میں حل کردیا کرتے اور ساتھ ہی آپ سیاست و حکمت کے بھی ماہر تھے۔
وصال:۲ شعبان المعظم ایک سو پچاس (۱۵۰) ہجری کو ہوا ہے۔ اناﷲواناالیہ راجعون۔ اﷲہم سب کو امام أعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے نقش قدم پرچلنے، حنفی حضرات کو مسلک حنفی کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمین
zubairhashmi7@gmail.com