حضرت مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا محبوب عالم اشرفی

حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کی ولادت ایران کے قدیم درالسلطنت ’’سمنان‘‘ میں ۷۰۸ھ میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت سلطان ابراہیم ’’سمنان‘‘ کے سلطان عادل اور صاحب دل بزرگ تھے۔ آپ کا شجرۂ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے توسط سے رسول اکرمﷺ تک پہنچتا ہے۔ آپ نے سات برس کی عمر میں ساتوں قراء ت کے ساتھ پورا قرآن کریم حفظ کیا، چودہ برس کی عمرمیں سند حاصل کی اور پندرہ سال کی عمر میں سمنان کے بادشاہ بنائے گئے۔
اللہ تعالیٰ کو حضرت مخدوم سمنانی کے ذریعہ مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کا کام لینا تھا، اسی وجہ سے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ رہنے لگا اور راہِ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل رہنے لگی۔ حضرت شیخ رکن الدین علاء الدین سمنانی، شیخ عبدالرزاق کاشی، امام عبداللہ یافعی، سید علی ہمدانی، شیخ عمادالدین تبریزی اور دیگر اکابر صوفیہ و علماء سے علوم شریعت و طریقت سے بہرہ مند ہوئے۔ (لطائف اشرفی۱،ص۲۰)
والدہ ماجدہ سے سفر کی اجازت طلب کی اور سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید محمد کے سپرد کرکے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت شیخ علاء الحق لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہندوستان کے مشہور ہندی و فارسی ادیب ملک محمد جائسی کا قول ہے کہ ’’امت محمدیہ میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں، ایک حضرت ابراہیم ادہم رحمۃ اللہ علیہ اور دوم حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ‘‘۔ (صحائف اشرفی ۱۱۳)
حضرت مخدوم سمنانی شہر سمنان سے نکل کر براہ سمرقند ملتان میں اوچھ شریف پہنچے۔ یہ مقام اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی تصرفات اور رشد و ہدایت کا مرکز بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم سمنانی، حضرت مخدوم جہانیاںکی خانقاہ میں تین روز تک مہمان رہے۔ خود حضرت مخدوم سمنانی کا بیان ہے کہ حضرت مخدوم جہاں نے آپ کو اکابر مشائخ سے حاصل ہونے والے روحانی فیوض وبرکات اور سلسلۂ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا (لطائف اشرفی ج۲ص۹۴، خزینۃ الاصفیا: ج۲،ص۵۷تا۶۳) وقت رخصت حضرت مخدوم جہاں نے فرمایا: فرزند اشرف! جلدی کرو اور دربار شیخ علاء الحق میں حاضر ہوجاؤ، وہ شدت سے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ (ایضاً)
آپ دہلی ہوتے ہوئے بہار شریف، پھر وہاں سے بنگال پہنچے۔ حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی نے آپ کا استقبال کیا اور بکمالِ اعزاز آپ کو اپنی خانقاہ میں لائے۔ حضرت شیخ نے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مرید فرمایا اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ مخدوم سمنانی حضرت شیخ کی خدمت میں رہ کر کثیر مجاہدات و ریاضت کے ذریعہ منازل سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی۔ ایک روز شیخ کی خانقاہ میں مجاہدہ میں مشغول تھے، اسی وقت درودیوار سے غیبی آواز آنے لگی: ’’اشرف جہانگیر، اشرف جہانگیر‘‘۔ حضرت شیخ نے مسرت کا اظہار فرمایا اور بہ اشارۂ غیبی یہ معزز خطاب حضرت مخدوم سمنانی کو عطا فرمایا۔
(لطائف اشرفی، صحائف اشرفی، مرأۃ الاسرار، ص۱۰۴۶)
تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لئے بنگال سے براہ جونپور و بنارس کچھوچھہ پہنچے۔ آپ جب جونپور پہنچے تو وہاں پر سلطان ابراہیم شرقی، علامہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی اور دیگر علماء و مشائخ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور کثیر تعداد میں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خود سلطان آپ کا معتقد ہوا اور اپنے اہل خانہ کو آپ سے مرید کروایا۔ علاوہ ازیں کثیر تعداد میں غیرمسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور گمراہوں و فاسقوں نے اپنی گمراہی اور فسق و فجور سے توبہ کی۔
ایک مرتبہ بنارس میں پنڈتوں سے آپ کا مباحثہ ہوا، انہوںنے آپ سے دین اسلام کی حقانیت پر دلیل طلب کی۔ سامنے بت خانہ تھا، جہاں لوگ پوجا میں مصروف تھے۔ آپ نے فرمایا: جس دین کا کلمہ میں پڑھتا ہوں، اس کی حقانیت کی گواہی اگر تمہارے بت خود دے دیںتو؟‘‘۔ انہوںنے کہا: اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے؟۔ حضرت مخدوم نے ایک بت کو مخاطب کرکے کلمۂ اسلام پڑھنے کو کہا، تو وہ بت زندہ ہوگیا اور آپ کے ساتھ کلمہ پڑھنے لگا۔ آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر اور اس کی شہرت سن کر کثیر تعداد میں ہندو مسلمان ہوئے۔ یعنی آپ نے بے شمار لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل فرمایا اور لاکھوں مسلمانوں کو داخل سلسلہ کر کے ان کی اصلاح و تزکیۂ نفس کا سامان فرمایا۔ بالآخر آپ کے وصال کا وقت قریب آیا اور آپ نے ۲۸؍ محرم الحرام ۸۰۸ھ کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار شریف کچھوچھہ میں ہے، جہاں ہرسال ماہ محرم کے آخری عشرہ میں تقاریب عرس نہایت ہی احترام کے ساتھ منائی جاتی ہیں۔