حضرت محمد ِعربی صلی اﷲ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں

سـیِـد زبـیـر ہـاشـمـی

حضور نبی رحمت حضرت محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ لا نظیر لہ ولا مثیل لہ کے مصداق ہیں۔

حضور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مقدس میں نرمی، رقت بدرجہ اتم دیکھا جاسکتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہی رحمت ہے، اتنے نرم اور شفیق کہ سختی کا نام بالکل ہی نہیں پایا جاتا،جلال اور جمال کا ایک خوبصورت امتزاج پایا جاتا، لیکن جہاں تک معمولات شب و روز کا تعلق ہے عملاً جمال کی کیفیت غالب دکھائی دیتی تھی۔

’’صحابی رسول، عاشق رسول، خلیفۂ چہارم، داماد مصطفی، شیر خدا حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصف جمیل کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دل کے سب سے بڑھ کر سخی، زبان میں سب سے بڑھ کر سچے اور مزاج میں کے سب سے بڑھ کر نرم تھے‘‘۔ {ترمذی شریف}

حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے مزاج اقدس کا کما حقہ ٗ ادراک تو ممکن ہی نہیں ، البتہ حضور نبی کریم علیہ التحیۃ والثناء کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ علیہ السلام پیکر فقر و غنا تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی مجلس میں مساوات کا کامل نمونہ تھے، اپنے عمل سے کسی میں احساس کمتری پیدا نہ ہونے دیتے،نبی رحمت حضرت محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سب کے لئے یکساں تھے، غریبوں، مسکینوں اور معاشرتی طور پر کم تر حیثیت کے لوگوں سے یوں گھل مل جاتے کہ مجلس کا ہر ایک شخص کُھل کر بات کرتا، اپنی کیفیات کے اظہار کا بھر پور موقع ملتا، کوئی پابندی بالکل نہ تھی، پاسداری کا عملی طور پر اہتمام ہوتا۔ قدم قدم پر انسانی حقوق کا مساوی درس ملتا تھا۔

ایثار کا عالَم تویہ تھا کہ دوسروں کا سامان اٹھا کر ان کے گھروں تک پہنچادیتے، ہمسایوں کی ضرورت کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا،بازار سے سودا وغیرہ لانا، بکریوں کا دودھ دوہنا، یتیموں، مسکینوں کی دستگیری کرنا، غلاموں کی مدد کرنایہ طریقہ صرف ایک دو دن کا نہیں بلکہ روز مرہ کا معمول تھا۔

’’حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان اس طرح گھل مل جاتے کہ اجنبی لوگ آتے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکتے یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کے بارے میں دریافت کرتے‘‘{أبوداؤد شریف}

اﷲ تعالیٰ کی خشیت و خوف الٰہی سے حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی کہ گریہ و زاری کی کثرت سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینۂ مبارکہ کے جوش مارنے کی سی آواز نکلتی۔ یہ کیفیت ہر نماز کی حالت میں ظاہر ہوتی۔

’’حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نماز میں آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی کیفیت کا ذکر کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینئہ مبارک سے رونے کی آواز اس طرح سے آرہی تھی جیسے ہنڈی کے ابلنے کی آواز آتی ہے‘‘{ترمذی شریف}

’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کسی سفر میں رات کے وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بسم اﷲ کی تلاوت کی اور آغاز کرتے ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور پھر گریہ وزاری کی وہ کیفیت طاری ہوگئی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیس مرتبہ اس کی تلاوت فرمائی اور ہر مرتبہ خشیت الٰہی سے روتے روتے گرپڑتے، پھر مجھے مخاطب کرکے ارشاد فرماتے : اے ابوہریرہ! وہ شخص تباہ ہوگیا جس پر رحمٰن و رحیم نے رحم نہ فرمایا‘‘۔ {ترمذی شریف}

حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم معصوم عن الخطاء ہیں، مگر اس کے باوجود امت کی تعلیم کیلئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کثرت کے ساتھ نفل نمازیں ادا کرتے، خوف خدا و خشیت الٰہی کا یہ عالم تھا کہ پوری پوری رات جائے نماز پر گزر جاتی۔

’’ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم رات کے وقت نماز تہجد ادا فرماتے تو قیام اتنا طویل ہوتا کہ مبارک قدموں پر ورم آجاتا۔ ام المؤمنین فرماتی ہیں: یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! آپ تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے محبوب ہیں، اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ تو نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ! کیا میں اﷲ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘۔ {مسلم شریف}

آج ہمارے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمابرداری میں اپنی زندگی کو گزاریں۔ تاکہ کامیابی و سرفرازی نصیب ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com