حضرت غوث اعظم ؒ کا پیکر استقلال

محمد اعظم الدین صدیقی
شیخ ابو عبداللہ نجّار بیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخ نے مجھ سے اپنے واقعات اس طرح بیان فرمائے کہ میں جس قدر مشقتیں برداشت کرتا تھا، اگر وہ کسی پہاڑ پر ڈال دی جاتیں تو وہ بھی پارہ پارہ ہوجاتے اور جب وہ مشقتیں میری قوتِ برداشت سے باہر ہوجاتیں تو میں زمین پر لیٹ کر کہتا ہے کہ : فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ ’’ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بیشک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اپنے سَر کو زمین سے اُٹھا لیتا تو میری کیفیت بدلی ہوتی اور مجھے سکون مل جاتا تھا۔
آپ نے فرمایا: جب میں علم فقہ حاصل کرتا تھا تو شہر کے بجائے صحراؤں اور ویرانوں میں راتیں گزارتا تھا۔ ادنیٰ لباس پہن کر ننگے پاؤں کانٹوں پر چلا کرتا تھا اور نہر کے کنارے لگے ہوئے درختوں کے پتوں اور گھاس پھوس سے اپنا پیٹ بھر لیا کرتا۔غرض یہ کہ میرے مجاہدات کی راہ میں کوئی سخت سے سخت چیز بھی حائل نہ ہوتی کہ جس سے میں دِلبرداشتہ ہوجاتا۔ اس طرح شب و روز میرے اُوپر گزرتے اور بعض وقت میں چیخ مارکر منھ کے بل گرپڑتا۔ یہاں تک کہ لوگ مجھے دیوانہ اور مریض سمجھ کر شفاء خانوں میں پہنچا دیتے۔ کبھی میری یہ حالت ہوتی، جیسے کہ مُردہ ہوگیا ہوں۔ اور نہلانے والے مجھے غسل دینے آچکے ہیں، لیکن پھر یہ کیفیت بھی مجھ سے دُور کردی جاتی۔
شیخ ابوالسعود حریمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ کو یہ کہتے سنا کہ ’’میں عراق کے صحراؤں اور ویرانوں میں پچیس سال اس طرح پھرا ہوں کہ نہ تو میں مخلوق کو جانتا تھا اور نہ مخلوق مجھ سے واقف تھی۔ جنات اور رجال الغیب آتے اور میں انھیں سلوک کی تعلیم دیتا تھا۔ عراق میں آتے وقت حضرت خضر علیہ السلام میرے رفیق بنے ہوئے تھے۔ باوجود یہ کہ میں اُن سے واقف نہ تھا، اُس وقت میرا اُن کا یہ معاہدہ ہوا کہ میں اُن کے کسی حکم کی مخالفت نہیں کروں گا‘‘۔
ایک مرتبہ انھوں نے مجھے ایک جگہ بیٹھ جانے کا حکم دیا تو میں تین سال تک اُسی جگہ بیٹھا رہا اور سال میں ایک مرتبہ وہ مجھ سے آکر یہ فرماتے کہ یہی تیرا وہ مقام ہے، جہاں تک تجھے پہنچایا گیا ہے اور جب دُنیا پوری آب و تاب سے آراستہ ہوکر میرے سامنے آتی تو اللہ تعالیٰ میری مدد فرماتا۔ اور جب شیاطین مہیب صورتوں میں مجھ سے مقابلہ کرتے تو بھی نصرتِ الٰہی میرے ساتھ ہوتی۔
حضرت شیخ عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں سوتے جاگتے ہمہ وقت لوگوں کو اوامر اور نواہی کی تلقین کیا کرتا تھا۔ اور میرے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہوجاتا کہ اگر میں کسی سے اظہار نہ کرتا تو میرا دم گھٹنے لگتا۔ چنانچہ میری مجلس میں دو تین افراد ایسے ضرور ہوتے تھے جو میرا کلام سن کر دوسروں تک پہنچایا کرتے تھے، جس کے بعد لوگوں کا اس درجہ ہجوم ہونے لگا کہ مجھے حلب کی مسجد میں بیٹھنا پڑا۔ اور جب اژدہام کی وجہ سے وہاں بھی تنگی ہوگئی تو میرے منبر کو وہاں لے جایا گیا، جہاں تنور وغیرہ لگے ہوتے تھے، لیکن وہاں پر بھی لوگ راتوں کو مشعلیں لے لے کر آنے لگے اور جب وہاں بھی جگہ کی تنگی ہوئی تو منبر شہر سے باہر عیدگاہ میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں لوگ گھوڑوں، خچروں اور اُونٹوں پر سوار ہوکر پہنچنے لگے جن کی تعداد تقریباً ستر {۷۰} ہزار ہوتی تھی۔