حضرت شیخ الحدیث سلوک و طریقت کے عظیم پیشوا

عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریفؒ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کی علالت کی خبریں آرہی تھیں کہ مہلک مرض ( پیٹ میں سرطان) آخری مراحل میں ہے اور دوائیں کارگر نہیں ہیں، فون پر بات کرنے اور خیریت دریافت کرنے پر طبیعت آمادہ نہ تھی ، دل مطمئن تھا کہ جدائی کا وقت قریب نہیں ہوگا ۔ مخفی مبادکہ حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کی حالت مرض کی تصاویر موصول ہوئیں۔ چہرہ کی تروتازگی سے مہلک مرض کے آثار کا قطاً گمان نہیں ہورہا تھا بطور خاص حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کی پوری زندگی باطل سے ٹکرانے ، آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے ، بے ہنگم حالات کامقابلہ کرنے اور پورے استقلال اور استقامت سے اپنے مشن اور مقصد پر قائم رہنے اور بے خوف و خطر آگے قدم بڑھانے میں گزری ہے ۔ اس جان لیوا مرض کا ایسی باہمت اور انقلابی ذات گرامی سے سابقہ ہوا تھا جن کی روحانیت کی برکت سے متعدد لوگ اس مہلک مرض سے شفا پاگئے تھے ، ہمیں اتنی جلدی جدائی کی اُمید نہ تھی ۔ بہرکیف ہم نے دوسرے پہلو پر غور نہیں کیا کہ حضرت قبلہ ؒنے مقصد حیات کی تکمیل کرلی ہے ، آپ کا مشن پورا ہوا ، آپ کے منصوبوں کی داغ بیل پڑگئی ہے اور اب رفیق اعلیٰ سے ملنے کا وقت آگیا ہے ۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ جس وارثِ علوم نبوت اور مرد مجاہد نے زندگی بھر اعلاء کلمۃ الاسلام اور اشاعت علوم نبویہ کے لئے ’’یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم ‘‘ کے بمصداق اسلام کے داعی اور علماء حق کی فوج در فوج تیار کرنے میں وقف کی ہے ۔ ان کے مقدر میں اﷲ رب العزت نے شہادت حکمی کی نعمت لکھی ہے ۔ مسلم شریف میں حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا : تم شہید کس کو شمار کرتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اﷲ ! وہ شخص جو اﷲ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا : تب میری اُمت کے شہداء کم ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کیا پھر شہید کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو اﷲ کی راہ میں فوت ہو وہ شہید ہے ، جو ’’طاعون‘‘ میں فوت ہو وہ شہید ہے ۔ جو پیٹ کی بیماری میں فوت ہو وہ شہید ہے اور جو پانی میں ڈوب کر فوت ہو وہ شہید ہے ‘‘۔ ( مسلم )

عجیب اتفاق ہوا کہ والدہ ماجدہ کی طبیعت اچانک بگڑگئی ، فی الفور امریکہ سے رخت سفر باندھکر شہر حیدرآباد آنا ہوا ۔ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہوا ایک ہفتہ میں والدہ صحتیاب ہوکر ڈسچارج ہوئیں تو ۷ ڈسمبر ۲۰۱۸؁ ء کو بعد نماز جمعہ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کے دولت خانہ پر حاضری کا موقعہ ملا ، اطلاع ملی کہ حضرت قبلہ علیہ الرحمہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضرت بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمہ کی زیارت کے بعد واپس ہوئے تھے کہ ایک ہاتھ اور پاؤں پر فالج کا اثر ہوا ۔ اہل خانہ دواخانہ کو لیجانے کے لئے فکرمند تھے میں قریب جاکر اپنا تعارف کروایا جبکہ بصارت بھی حد درجہ کمزور ہوچکی تھی ۔ آپ نے دست مبارک دراز فرمایا ۔ دست بوسی کا شرف حاصل ہوا ۔ کچھ لمحات کے بعد دعا دی: ’’اﷲ تسخیر کو اچھا رکھے‘‘ ۔ اس وقت قلب و دماغ کے علاوہ اعضاء رئیسہ ناکام ہوچکے تھے ۔ آپ حد درجہ نحیف و کمزور ہوگئے تھے، اس کے باوصف چہرہ تروتازہ و شاداب تھا ۔ دل اور دماغ پر بیماری اور کمزوری کا کوئی اثر نہیں تھا ، زبان پر ذکر جاری ، سیدھے ہاتھ میں تسبیح کے دانے پلٹ رہے ہیں اس کے فوراً بعد آپ کو دواخانہ منتقل کیا گیا جہاں ایک ہفتہ زیرعلاج رہکر آپ نے داعی اجل کولبیک کہا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس شدید بیماری میں جو سکون اور استحضار کے ساتھ میں نے آپ کو بلا انقطاع ذکر کرتا ہوا دیکھا وہ میری زندگی کا اہم اور یادگار لمحہ ہے ۔ مداومت علی الذکر اور توجہہ الی اﷲ کا جو نمونہ آپ نے پیش کیا وہ بے مثال ہے ۔ یہی حضور و آگاہی کی کیفیت سلوک و تسلیک کا خلاصہ ہے ۔ یعنی غفلت کا اُٹھ جانا اور ہر لمحہ یاد الٰہی میں غرق ہونا ہی تصوف کا مقصود ہے بلاشبہ یہ کیفیت جو ہم نے قدیم اولیاء کے بارے میں پڑھی تھی اس کاعملی نمونہ ان گنہگار آنکھوں نے آپ کی شکل میں دیکھا ہے ۔ جس ذات گرامی کو شدید جان لیوا بیماری کے آخری مرحلہ میں جبکہ اکثر اعضائِ بدن مفلوج ہوگئے ہیں اسقدر سکون و استحضار قلب حاصل ہو تو اس ذات کی بحالت صحت و تندرستی یکسوئی ، جمعیت خاطر اور اطمینان قلبی کا عالم کیا رہا ہوگا ؟

صحت و تندرستی کے زمانہ میں غیرمعمولی ذکر و استحضار کے التزام و اہتمام کے بغیر مہلک مرض کے آخری درجے میں دائمی حضور و آگاہی کی کیفیت کا حصول بظاہر ناممکن و دشوار ہے ۔ سلوک میں بلندہمتی مطلوب ہے کیونکہ : ’’یقینا اﷲ تعالیٰ عالی ہمت کو پسند فرماتا ہے ‘‘کے بمصداق ولایت عامہ سے عروج کرکے ولایت خاصہ میں داخل ہونے کیلئے بلند ہمتی درکار ہے اور یہ وصف حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ میں کمال درجہ کا رہا ہے ۔
جامعہ نظامیہ کے کبار شیوخ میں ہر ایک بعض امتیازی خصوصیت سے متصف رہے ہیں مثال کے طورپر حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین مدظلہ العالی صدر مفتی جامعہ نظامیہ فن افتاء اور تفقہ کے علاوہ ’’ورع‘‘ میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔ اور ’’ورع‘‘ کی کیفیت ’’تقوی‘‘ سے بلند ہے ۔ اسی طرح حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ اپنی فنی مہارت ، حدیث شریف میں مرکزیت کے علاوہ اخلاص اور بے نفسی میں اونچا مقام رکھتے ہیں۔ حدیث شریف : ’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے رہیں تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ کو بنالے‘‘ میں جس بے نفسی اور اخلاص کی تلقین و تعلیم ہے اس کے ایک عملی مظہر ہماری نظروں میں حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی ذات رہی ہے۔ میرے پیر و مرشد حضرت ابوالخیرات سید انواراللہ شاہ نقشبندی مجددی و قادریؒنبیرۂ حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ فرماتے تھے ۔ ’’بغیر جذب کے سلوک طے نہیں ہوتا ‘‘ ۔
صوفیاء کرام نے کتب تصوف میں سالک ، مجذوب ، سالک مجذوب اور مجذوب سالک کی تقسیمات ذکر کی ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کہ حضرت شیخ الحدیث متذکرہ بالا تقسیمات میں سے کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ آپ مختلف اکابر شیوخ کی صحبت اور زیرتربیت مختلف سلاسل میں ریاضت و جدوجہد کی ہے جس کی بناء آپ پر ’’سالک‘‘ کا اطلاق ہوگا ساتھ ہی آپ ابتداء ہی ’’جذبۂ الٰہیہ ‘‘ کے زیرآغوش روحانی ترقی پاتے رہے، چنانچہ صفات حمیدہ مثلاً اخلاق ، بے نفسی، خوش خلقی ، تواضع ، صبر و تحمل ، مروء ت ، وفاداری ، بلندہمتی ، ثابت قدمی ، ایثار ، قربانی ، سکینت و وقار جیسے صفات سے فطری طورپر آپ متصف رہے ۔ ان کے حصول کیلئے آپ کو جدوجہد اور کسب کی ضرورت نہیں ہوئی ۔ اس کے علاوہ حسد ، بغض ، نفرت ، دشمنی ، بحث و مباحثہ ، نزعاات و خصومات ، حرص ، لالچ ، غیبت ، بخل ، بدخلقی ، تکبر و غرور جیسے صفات ذمیمہ سے آپ کا دامن بچپن سے پاک رہا ۔ آپ کو تمام سلاسل میں ارادت و خلافت حاصل تھی ۔ آپ صحت کے زمانے میں ’’رسالہ قشیریہ‘‘ کادرس دیتے تاہم آپ شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ کی تصنیف ’’القول الجمیل ‘‘ پڑھنے کی تاکید کرتے اور فرماتے کہ اس میں صاحب کتاب نے سلاسل کی خصوصیات کے علاوہ طریقہ ذکر کو بیان کیاہے ۔ آپ ہمیشہ فرماتے کہ کوئی عمل چالیس دن مسلسل بلا ناغہ کرنے سے اس کی عادت ہوجاتی ہے ۔ آپ ’’پاس انفاس‘‘ کے چالیس دن مشق کی تلقین کرتے اور فرماتے جس کو اس ذکر کی عادت ہوجائے اس کو کبھی دل کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا ۔ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی ساری زندگی دنیا سے بے رغبتی(زہد) ترک دنیا اور قناعت سے معمور ہے ۔ کثیرالعیال ہونے کے باوجود ساٹھ گز کے مکان میں ساری زندگی گزاردی ۔ نہ مکان کی خواہش ، نہ گاڑی کی تمنا ، نہ کسی عہدہ کی طلب ، نہ مال و جائیداد کی حرص ، نہ عمدہ لباس کی پرواہ نہ مرغن غذاوں کی آرزو ۔ صوفیاء کے ایک گروہ نے عزلت و گوشہ نشینی کو ترجیح دی تو دوسرے گروہ نے خلوت درانجمن کی تلقین کی۔ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ نے خلوت درانجمن کو اختیار کیا اور آپ نے تجرید و تفرید کے بجائے متاہل زندگی گزاری اور کثیرالعیال رہے ۔ آپ صاحب ترتیب رہے ، صلوۃ الاوبین کے پابند رہے ، سونے سے قبل ذکر کا بالالتزام اہتمام کرتے ۔ پیرانہ سالی کے باوجود دوشنبہ کا روزہ رکھتے اور مریدین کے ساتھ افطار کرتے ۔ درود شریف روحانی تعلق کے علاوہ تہذیب نفس پر نہایت مؤثر ہوتا ہے نیز بے شمار ظاہری و باطنی فوائد و منافع کا موجب ہے اس لئے آپ نے درود شریف کے ورد کو غیرمعمولی فروغ دیا اور دلائل الخیرات کے ورد کو عام کیا ۔ آپ کے مزاج میں نفس پر بار ڈالنا نہیں تھا اس کے باوصف ایک بیٹھک میں دلائل الخیرات مکمل پڑھنے کی مجالس قائم کی ۔ ایک عرصے کے بعد ایک ایسے شیخ کا ظہور ہوا جس نے خاص نظام تربیت کو قائم کیا تھا بالآخر ہزاروں عقیدتمندوں اور وابستگان کو خیرباد کہکر ۱۴؍ ڈسمبر ۲۰۱۸؁ء کو رفیق اعلیٰ سے جاملے ۔