حضرت سید محمد بادشاہ حسینی قادری لئیق ؔ

حضرت مولانا سید محمد بادشاہ حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بابرکات برصغیر ہند و پاک کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے۔ سرزمین دکن پر آصف سابع کے دور میں بادشاہ سے لے کر فقیر تک، ہر شخص کسی نہ کسی عنوان سے آپ سے واسطہ رکھتا تھا۔ جامعہ نظامیہ کے فاضل، مکہ مسجد کے واعظ، مجلس علمائے دکن کے روح رواں۔ جہاں علم و فضل میں آپ اپنی نظیر تھے، وہیں ذوق شعر و سخن میں بھی بے نظیر تھے۔ لئیقؔ تخلص فرماتے تھے۔ آپ کا کلام عشق رسول، اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، پیران پیر حضور سیدنا غوث اعظم دستگیر سے بھرا ہوا ہے۔
حضرت سید محمد بادشاہ حسینی قادری رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق سادات حسینی سے ہے۔ ۴۲ واسطوں سے آپ کا سلسلہ سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ حیدرآباد کے مشہور پیر طریقت ولی بزرگ سید الشیوخ حضرت مولانا حافظ سید شاہ محمد عمر حسینی قادری خلیقؔ قدس سرہ کے فرزند اکبر تھے۔ آپ ۱۷؍ ذیقعدہ ۱۳۱۷ ھ کو اپنے آبائی مکان واقع قاضی پورہ میں تولد ہوئے۔
ابتدائی تعلیم ۱۳ سال تک اپنے والد بزرگ سے حاصل فرمائی۔ پھر علوم اسلامیہ و عربیہ کے لئے جامعہ نظامیہ میں شریک ہوکر جید علماء سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ آپ نے جامعہ نظامیہ سے مولوی فاضل کا امتحان کامیاب اور درس نظامی کے بعد برادر مکرم بحر العلوم حضرت مولانا عبد القدیر صدیقی حسرت سے علوم ظاہری و باطنی میں تقریباً ۲۰ سال استفادہ کیا۔
حضرت کی ساری زندگی رشد و ہدایت، پند و مواعظ اور علم دین کی خدمت میں گزری۔ اپنے والد ماجد کی طرح ہر جمعہ کو مکہ مسجد میں بعد نماز جمعہ وعظ فرماتے، اس کے بعد حلقۂ ذکر اور نعت شریف کی مجلس ہوتی۔ ہر سال پہلی تاریخ سے دس محرم تک مجالس عاشورہ، یکم سے ۱۲؍ ربیع النور مجالس میلاد مبارک، پہلی سے گیارہ ربیع الثانی مجالس یازدہم شریف میں پابندی سے وعظ فرماتے۔ ان کے علاوہ ہر سال ۱۱؍ ربیع النور کو جلسہ میلاد پاک اور ۲۶؍ رجب کو جشن معراج مبارک میں مکہ مسجد میں وعظ فرماتے، جس میں آصف سابع حضور نظام بھی بپاندی شرکت کی سعادت حاصل کرتے۔ اصلاحی امور پر بھی بکثرت اظہار خیال فرماتے، خصوصاً دینی تعلیم کی اہمیت، اصلاح رسم و رواج یعنی شادی بیاہ کے رسوم، ولادت کے رسوم، میت کے رسوم، انسداد لہو و لعب پر بطور خاص توجہ دیتے۔
آپ فطرتاً نیک، رحمدل اور ہمدرد تھے۔ اپنی برادری، اہل سلسلہ اور اہل محلہ کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی کرتے۔ آپ کی شخصیت ظاہری اعتبار سے بھی جاذب نظر تھی۔ آپ کو تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں۔ ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۳۸۴ ھ کو اس فانی دنیا سے دار بقا کی طرف آپ نے رحلت فرمائی۔ آپ کا مزار مبارک قادری چمن فلک نما میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔