حضرت زینب نہ ہوتیں تو کربلا کا واقعہ تپتے ریگستان میں ہی دب کر رہ جاتا 

نئی دہلی : امام حسین کی شہادت کے سلسلہ میں دہلی کے مختلف مقامات پر مختلف انداز میں تقریبات منعقد کئے جا نے کا سلسلہ قائم ہے ۔ اسی کے تحت کربلا کے پیغام کو اپنے دلنشین واعظوں کے ذریعہ ہر خاص وعام تک پہنچانے والی حضرت امام حسین کی بہن حضرت زینب کی یاد میں ایک سمینار ’’ پیام زینب ‘‘انڈیا انٹر نیشنل سنٹر میں منعقد کیاگیا ۔

اس سمینار میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام ، دانشوران او رماہرین اسلامیات نے حصہ لیا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔استاد حسن امام امروہی کے سلام سے پروگرام کا افتتاح عمل لایا گیا ۔خطبہ استقبالیہ ڈاکٹر محسن ولی نے پیش کیا اور کہا کہ آج کے معاشرہ کیلئے اس طرح کے سمینار کا اہتمام کرنا نہایت ضروری ہے جس سے معاشرہ کو معلوم ہوسکے کہ اسلام نے خواتین کا کیا کیا حقوق دئے ہیں ۔ا س موقع پر نہایت غمناک منظر او رگریہ وزاری کے ماحول میں اسیران کربلا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ پد م شری مظفر علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت زینب کی آواز آزادی کی آواز تھی ۔ بی بی زینب نے شہادت حسینی کوزندہ رکھا اگر وہ نہ ہوتیں تو امن کا حسینی پیغام کربلا کے تپتے میدان میں ہی دب کر رہ جاتا ۔

معروف مصنفہ محترمہ کامنہ پرساد نے اپنی تقریر میں کہا کہ میدان کربلا کی چشم دیدہ خواتین نے اپنے عزم ، ہمت ، حق پرستی اور جذبہ ایثار کی اعلی مثال پیش کی اور مخالف ہواؤں کے باوجود حق کے چراغ کو روشن رکھا ۔ پروفیسر عباس رضا نیر جلالپوری نے شہادت امام حسین کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ غم ہر درد کی دوا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہادت امام حسین کے بعد ان کے گھر کی خواتین کو قید کرلیاگیا، جن کے مصائب بیان نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔پروفیسر اختر الواسع نے اپنے خطاب میں کہا کہ عہد حاضر کے معاشرہ اور بالخصوص خواتین کو بی بی زینب سے درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ بی بی زینب نے اپنے قائدانہ صلاحیتوں سے حسینی مشن کو زندہ رکھا او رانہی کی زبانی سانحہ کربلا کے بیان کا سلسلہ شروع ہوا ۔

اس موقع پر سامعین نے آہ وبکا کی صدائیں بلند کیں ۔ اور پوری طرح سے غم کا ماحول چھا گیا ۔