حضرت ابوبکر صدیقؒ کا منصب امارت سنبھالنے کے بعد پہلا خطبہ

شیخ احمد حسین

رسول کریم ؐ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرامؓ کے مشورے سے آپؓ کو جاں نشین رسول اکرمﷺ  مقرر کیا گیا۔ خلافت سنبھالنے کے بعد آپؓ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا اور فرمایا: ’’میں آپ لوگوں پر حکمران بنایا گیا ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نے یہ منصب اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا ، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے ، نہ میں نے کبھی خدا سے اس کیلئے دعا کی ، نہ میرے دل میں اس کی کبھی حرص پیدا ہوئی ۔ میں نے تو اسے بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتداد برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا ۔ میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک بار عظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے ، جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیںہے ۔ سوائے اس کے کہ اﷲ تعالیٰ ہی میری مدد فرمائی ۔ اب اگر میں ٹھیک کام کروں میری مدد کیجئے اور اگر غلط کام کروں مجھے سیدھا کردیجئے ۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے ۔ یہاں تک کہ میں اس کاحق اسے دلواؤں ، اگر خدا چاہے ۔ تم میں سے جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک ایک کمزور ہے ، یہاں تک میں اُس سے حق وصول کروں ، اگر خدا چاہے ۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی قوم اﷲ کی راہ میں جدوجہد چھوڑے اور اﷲ اس پر ذلت مسلط نہ کردے ، کسی قوم میں فحاشی پھیلے اور اﷲ اس کو عام مصیبت میں مبتلا نہ کردے ۔ میری اطاعت کرو جب تک میں اﷲ اور رسول ﷺ کا مطیع رہوں اور اگر میں اﷲ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے (طبری ، ابنِ ہشام )
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشور کا اعلان فرمایا، پورے دور خلافت میں اس کی مکمل پاسداری کی۔ آپؓ نے بیت المال سے ایک عام مزدور کی اجرت جتنا وظیفہ لیا اور عسرت میں زندگی بسر کی۔ آپؓ کی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔