حسن روحانی کی دوسری میعاد

دل اگر صاف ہو کدورت سے
ذات اعلیٰ صفات ہوجائے
حسن روحانی کی دوسری میعاد
ایران میں حسن روحانی دوسری صدارتی معیاد کیلئے حلف لے چکے ہیں۔ ان کی دوسری معیاد پہلی معیاد سے زیادہ مشکل ہوسکتی ہے ۔ ان کے سامنے جہاںایران کی داخلی صورتحال کو بہتر بنانے کا چیلنج ہے وہیں انہیں مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بہتر بنانے کے محاذ پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود ایران میں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں انہیں بہتر بنانا حسن روحانی کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ ملک میں جو داخلی صورتحال امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی تحدیدات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے وہ خود ایرانی عوام کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہو رہی ہے ۔ حالانکہ ایران بڑی حد تک ان تحدیدات اور پابندیوں کے معاشی اثرات کو کم سے کم کرنے میں کامیاب رہا ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تحدیدات اس پر قطعی اثر انداز نہیںہوئی ہیں۔ ایران کے عوام بھی اس طرح کی تحدیدات کو عملا قبول کرچکے ہیں اور اس کے اثرات کو وہ بھی قبول کرچکے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ مغربی ممالک کی تحدیدات ایران کی صورتحال پر اثر انداز ہونے لگی ہیں۔ ایک حد تک اس کے اثر کو زائل کیا جاسکا ہے لیکن مستقل تحدیدات اس پر اثر انداز ہونگے ہی اور اس کے نتیجہ میںملک کے داخلی حالات پر اس کا منفی اثر ہوگا ۔ یہ اثر ایران کی ہمہ جہتی ترقی اور معاشی پیشرفت پر خاص طور پر ہو رہا ہے اور ایران کی کرنسی کی قدر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہے ۔ حسن روحانی کی دوسری معیاد کی ایران کے روحانی رہنما نے بھی توثیق کردی ہے ۔ اس طرح سے اب حسن روحانی کے سامنے دوہرے مسائل ہیں اور ان کو حل کرنے کیلئے بے تکان جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ایران کے داخلی امور میں وہاں کے روحانی رہنما کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہیںبھی نئے صدر مملکت کے ساتھ ملک کی داخلی حالت کو بہتر بنانے کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جب تک یہ دونوں قائدین ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہوئے باہمی تال میل کے ذریعہ کام نہیں کرینگے اس وقت تک ایران کے مسائل اور داخلی حالات کو بہتر بنانے میں مدد نہیں مل سکتی ۔ ایران کے عوام کو راحت پہونچانے کیلئے انہیں آپسی تال میل کی مثال قائم کرنی ہی ہوگی اور اسی سے مسائل کی یکسوئی ممکن ہوسکتی ہے ۔
جہاں تک مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بات ہے یہ بھی اسی وقت بہتر ہوسکتے ہیں جب ایران اپنے حالات کو بہتر بنائیگا۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک ایران کے ساتھ ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ ایران کو ترقی کی منازل طئے کرتا ہوا دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ علاقہ میں اسرائیل کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اسرائیل نہیں چاہتا کہ ایران سکون سے رہ پائے ۔ ایران کے داخلی حالات جتنے ابتر ہونگے اتنا ہی اسرائیل کے مقاصد و عزائم کی تکمیل ممکن ہوسکتی ہے ۔ ایران کو ہی اسرائیل اپنے وجود کیلئے خطرہ سمجھتا ہے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ اسرائیل امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک پر اسی لئے دباو بناتا رہتا ہے کہ وہ ایران کو مسلسل نشانہ بناتا رہا ہے اور اس پر تحدیدات کی شکل میں دباو بھی بنا رہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے نمٹنے کیلئے ایک کامیاب اور جامع حکمت عملی کے ذریعہ کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جس وقت تک حالات کی مطابقت میں کام کرنے کی ایک مبسوط حکمت عملی تیار نہیں ہوگی اس وقت تک حالات کو بہتر بنانے میں مدد نہیں مل سکتی ۔ جہاں تک ایران کے دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بات ہے یہ محاذ بھی حسن روحانی کیلئے آسان نہیں ہے ۔ پڑوسی ممالک کے حالات اور واقعات کا بھی ایران کے داخلی حالات پر اثر ہونا لازمی امر ہے ۔ ایران پڑوسی ممالک کے معاملات میں بھی اپنا ایک رول رکھتا ہے اور یہ بات امریکہ ‘ اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک کیلئے پسندیدہ نہیں کہی جاسکتی ۔ اس پر بھی ایران کو پوری توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایران کا نیوکلئیر پروگرام جہاں مغربی ممالک کیلئے تشویش کا باعث وہیں اس کی وجہ سے دوسرے مغربی ممالک بھی ایران کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ حالانکہ ایک سے زائد مرتبہ ایران کو نشانہ بناتے ہوئے اس پروگرام سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایران نے اس معاملہ میں کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا ہے اور ایران کی یہی روش مغربی ممالک کیلئے ناقابل قبول ہے ۔ یہ ایران کا حق ہے کہ وہ مفادات کا تحفظ کرے اور اس کیلئے دوسرے ممالک کے دباو اور اس کے اثرات کو قبول کرنے سے انکار کردے ۔ اسی حق کو بچانے کیلئے ایران مغربی ممالک کی تحدیدات کو جھیل رہا ہے اور وہ مستقبل میں بھی ان کو برداشت کرنے کو تیار ہے ۔ مغربی ممالک کو بھی ایران کے تئیں اپنے رویہ میں نرمی پیدا کرنے کی اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بھی ہٹ دھرمی والا رویہ ترک کرنا ہوگا اتر تعلقات کو بہتر بنانا ہے ۔