حامد کا خواب

حامد ابھی صرف 10 برس کا ہی تھا کہ اسے اپنے مستقبل کی فکر ہونے لگی کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا ؟ آج بھی حامد اسکول سے فارغ ہو کر ایک نیم کے پیڑ کے سائے میں بیٹھ کر اپنی گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے ایک مصور بننے کا فیصلہ کیا ۔ تب تک اس کی گاڑی بھی آگئی اور وہ گھر کیلئے روانہ ہوگیا ۔ گھر پہنچنے کے بعد اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے اسکول کا کام پورا کیا اور تصویریں بنانے لگا ۔
جب اس کے والد اپنا کام ختم کر کے گھر واپس آئے تو حامد نے اپنی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے اپنے والد کو بتایا کہ وہ مصور بننا چاہتا ہے ۔ اس کے والد نے اس کو سمجھانے کی کافی کوشش کی کہ مصور بننا کوئی کام نہیں ، اسے اعلی تعلیم حاصل کر کے بزنس کرنا چاہئے ۔ پھر جب حامد نے اپنے والد کو اپنے شوق اور دلچسپی کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بہت غصہ ہوئے اور حامد کو ڈانٹ دیا ، ڈانٹ سننے پر حامد افسردہ ہوگیا اور چپ چاپ اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔ چند ماہ بعد شہر میں مصوری کا مقابلہ منعقد کیا گیا ، اس مقابلے میں شہر بھر کے اسکول میں موجود باصلاحیت طلبہ حصہ لینے والے تھے ۔ حامد یوں تو حصہ لینے سے انکار کررہاتھا مگر جب اساتذہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی تو وہ راضی ہوگیا ۔ مقابلہ دن اس نے ایک بچے کی تصویر بنائی جو اپنے والد کی گود میں بیٹھا ہوا تھا ۔ پورے مقابلے میں کوئی بھی اتنی اچھی تصویر نہ بناسکا تھا جیسی حامد نے بنائی تھی ، یوں اس کی تصویر مقابلے میں بہترین قرار پائی ۔ حامد کی یہ کارکردگی دیکھ کر اس کے والد بھی خوش تھے ۔ بچو ؒ ہمیں اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ خواب چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، ہمیں اسے پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ کوئی بھی خواب معمولی نہیں ہوتا ، والدین اور اساتذہ کی مدد سے بچے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور زبردست کامیابی اور ہنر حاصل کرسکتے ہیں۔