حامد انصاری کے تاثرات

خوب لکھی ہے زندگی کی کتاب
مجھ پہ اب انتساب رہنے دے
حامد انصاری کے تاثرات
ہندوستان کے نائب صدر کے عہدہ پر اپنی دوسری معیاد کے آخری دن جناب حامد انصاری نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے ملک میں پائے جانے والے حالات پر حقیقت پسندانہ اظہار خیال کیا ہے ۔ انہوں نے ملک کے نائب صدر کی حیثیت میں اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے حکومت کو حقیقی احوال سے واقف کرواتے ہوئے اس کی توجہ ایسے مسائل کی سمت مبذول کروانے کی کوشش کی ہے جس کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی حکومت لا تعلقی برت رہی ہے ۔ یہ حکومت کی پالیسی اور ایجنڈہ کا حصہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس طرح کے حالات اور واقعات اور ان سے ملک میں پیدا ہونے والی بے چینی کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے بدامنی پھیلانے والے عناصر سے چشم پوشی کرے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں کئی گوشوں کی جانب سے ان حالات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے ‘ حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘ حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کیلئے فوری موثر کارروائی کرنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن حکومت اس تعلق سے کوئی کارروائی کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ حکومت زبانی طور پر اس طرح کے واقعات اور انسانوں کو ہلاک کردئے جانے پر منہ کھولنے تک کو تیار نہیں ہے ۔ اب تک درجنوں افراد کو ہجوم کے حملے کے نام پر منظم انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن ایک بھی موقع ایسا نہیں ہے جب حکومت یا اس کے کسی ذمہ دار نے اس طرح کے واقعہ پر کوئی رد عمل ہی ظاہر کیا ہو۔ ایک مرکزی وزیر تو خود کو اقلیتی نمائندہ قرار دینے کے باوجود اس طرح کے واقعات کی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ اس صورتحال میں یقینی طور پر ملک کی اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ مسلسل کاوشوں کے بعد حکومت کی سرد مہری اور لا تعلقی کا سلسل ختم ہونے میں نہیں آ رہا ہے ۔ ایسے میں اگر نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز شخصیت حکومت کو توجہ دلاتی ہے تو یہ ملک و قوم کے تئیں ان کی فکر و تشویش ہی ہے ۔ اب کچھ ناعاقبت اندیش اور فرقہ پرست گوشوں کی جانب سے جناب حامد انصاری کے اظہار خیال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس پر تنقیدوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔
وہ لوگ اس مسئلہ پر اظہار خیال کرنے لگے ہیں جن کی زبانیں اس ملک میں سب سے زیادہ زہریلی ہیں اور وہ اقلیت دشمنی کی مثال بن گئے ہیں۔ جناب حامد انصاری ملک کے دوسرے اعلی ترین دستوری عہدہ پر دس برس تک متمکن رہے ۔ ان کی خدمات کا سبھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراف کیا گیا ہے اور جیسے ہی وہ اس عہدہ سے سبکدوش ہوئے ان پر تنقیدیں شروع کرتے ہوئے اوچھی سیاست اختیار کرلی گئی ہے ۔ جو عناصر اس مسئلہ پر اظہار خیال کرنے لگے ہیں ان کا سیاسی قد یا رتبہ ایسا نہیں ہے کہ وہ نائب صدر جمہوریہ کی حیثیت میں دئے گئے کسی کے بیان پر تنقید کرسکیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی یا حکومت کا کوئی اور ذمہ دار وزیر اس تشویش پر مثبت رویہ اختیار کرتا ۔ ان کی جانب سے جو مسائل اٹھائے گئے ہیں اور جو تشویش ظاہر کی گئی ہے اس کا اعتراف کرتا اور یہ عہد کیا جاتا کہ مستقبل میں اس طرح کی صورتحال پیدا ہونے کا موقع نہیں دیا جائیگا اور بدامنی اور بے چینی پھیلانے والے عناصر کے خلاف حکومت کارروائی کریگی ۔ حکومت نے حسب روایت اس حساس مسئلہ پر بھی کسی طرح کی لب کشائی سے گریز ہی کیا ہوا ہے اور ان پیادوں کو میدان میں چھوڑ دیا گیا ہے جو نفرت پھیلانے میں ماہر ہیں۔ یہ پیادے اب مختلف چیانلس کی مدد سے اپنی زہرافشانی کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ اس کا مقصد و منشا صرف یہی ہوسکتا ہے کہ حقیقی مسائل کی سمت خود اس ملک کے عوام کو توجہ دینے کا موقع نہ دیا جائے اور نفرت انگیز و اشتعال انگیز بیانات سے عوام کے ذہنوں کو منتشر رکھا جائے ۔
حکومت کی اس طرح کی حکمت عملی ہوسکتا ہے کہ اس کیلئے وقتی فائدہ کا باعث بنے اور کٹرپسند لوگ اسے پسند بھی کریں لیکن اس کے نتیجہ میں ملک کی سکیولر بنیادوں کو نقصان ہو رہا ہے ۔اس کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہم آہنگی متاثر ہو رہی ہے ۔ تکثیری سماج کی روایات کو نقصان ہو رہا ہے ۔ کثرت میں وحدت کی ہندوستان کی جو انفرادیت تھی وہ شبیہہ بگڑنے لگی ہے ۔ ایسے میں اگر نائب صدر جمہوریہ جیسے عہدہ پر فائز کوئی شخص اظہار خیال کرتا ہے تو حکومت کی یہ ذمہ داری اور اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حالات کو قابو میں کرنے کیلئے اقدامات کرے ۔ ملک میں جو بے چینی اور اقلیتوں میں عدم تحفظ کا جو احساس پیدا ہونے لگا ہے اس کو ختم کرتے ہوئے سماج کے تمام طبقات میں احساس طمانیت پیدا کیا جائے اور ہم آہنگی کی فضا بحال کی جائے ۔