حالیہ بارش سے رود موسی میں 1908 کی طغیانی کی یاد تازہ

جی ایم چھاؤنی قادری چمن کے مکین جناب سید ایوب پاشاہ قادری کے ذریعہ ایک صدی قدیم نادر و نایاب نقشہ دستیاب

حیدرآباد۔ 27ستمبر (سیاست نیوز) حیدرآباد نے اب تک طغیانی ٔ رود موسی کو ابتک فراموش نہیں کیا ہے اور شہری ان یادوں کو اب تک بھی محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ ماہ ستمبر کی آمد کے ساتھ ہی طغیانی ٔ رود موسی کا تذکرہ ہر زبان خاص وعام پر اپنے طریقہ سے ہونے لگتا ہے کوئی سلطانی ٔ جمہور میں رعایا کو نظر انداز کرنے کے طر ز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے یاد کرتا ہے تو کوئی اس دور میں شاہی کی رعایا پروری کی ستائش کرتے ہوئے اس طغیانی کو یاد کرنے لگتا ہے۔ سالانہ عثمانیہ دواخانہ کے احاطہ میں موجود افضل پارک میں ایک تقریب منعقد کرتے ہوئے اس درخت کو خراج پیش کیا جاتا ہے جو کئی افراد کی جان بچانے کا سبب بنا تھا۔ اس مرتبہ طغیانی ٔ رود موسی کو کچھ زیادہ ہی یاد کیا جانے لگا ہے کیونکہ اس مرتبہ بھی موسم کی ستم گری 1908کی یاد تازہ کروا رہی ہے اور ہر گوشہ سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس سال 100سال میں سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ موسم کی اس ستم گری اور ہلکی و تیز بارش کے دوران پرانے شہر کے علاقہ چھاؤنی غلام مرتضی نزد قادری چمن کے مکین جناب سید ایوب پاشاہ قادری نے طغیانی ٔ رود موسی کا نایاب و نادر نقشہ کی نقل ادارۂ سیاست کو حوالے کرتے ہوئے اس طغیانی کی تصویری تاریخ پیش کی جو جناب محمد احمد صاحب ملازم نظام ریلوے کی جانب سے تیار کی گئی تھی۔ اس نقشہ میں رود موسی میں آئی طغیانی کے اثرات سے متاثر علاقوں کی تمام تفصیلات درج ہیں جہاں سے پانی کا گذر ہوا اور تباہی مچی ان علاقوں کے نام کے علاوہ راہداریاں‘ نالہ ‘ حصار شہر بلدہ‘ قدیم ندی و علامات طغیانی و دیگر تفصیلات موجود ہیں۔ اس نقشہ میں طغیانی کے اثرات کی نشاندہی میں ان محلہ جات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جہاں لوگ کافی متاثر ہوئے تھے۔ ان علاقوں میں پیٹلہ برج‘ گھانسی میاں بازار‘ کوکہ کی ٹٹی ‘ چوڑی بازار‘ دھول پیٹ‘ چادر گھاٹ‘ گل بل گوڑہ ‘ کٹل منڈی‘ کولسہ واڑی ‘ فیل خانہ دیوانی‘ چاکنہ واڑی‘ بھوئی گوڑہ و گوشہ محل کے علاوہ دیگر علاقوں کا تذکرہ موجود ہے۔ 1908میں 27ستمبر کی اس قیامت خیز رات میں ہونے والی تباہی کے بعد شہر فرخندہ بنیاد کو مستقبل میں کسی بھی تباہی سے بچانے کے اقدامات کا فوری آغاز کیا گیا تھا اور متاثرین کیلئے راحت کاری اقدامات کے طور پر شاہی محلات میں لنگر لگائے گئے تھے اور ان لنگروں میں گوشت خوروں اور ترکاری خوروں کا خصوصی خیال رکھا گیا تھا ۔ طغیانی رود موسی کی یادیں اس مرتبہ نظام پیٹ‘ کالا پتھر‘ تاڑبن‘ علی نگر ‘ ناگول‘ ناچارم کے علاقوں میں جمع ہونے والے پانی نے یادیں تازہ کردیں لیکن رعایا پرور حکمراں دکن کی دور اندیشی نے موسی ندی پر عثمان ساگر و حمایت ساگر کی تعمیر کے سبب دوبارہ ایسی تباہی تو نہیں ہوئی لیکن سلطانی ٔ جمہور کے دور میں شہر کے نالوں و تالابوں پر’’ زمین اللہ کی قبضہ عبداللہ کے‘‘ نعرے نے بڑی تباہی مچائی ۔شہر کے کئی علاقوں میں تالاب غائب ہو چکے ہیں اور نالوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔