حافظ سعید کو فوری رہا کیا جانا چاہئے : پرویز مشرف

مرحوم سعودی فرمانروا کی جانب سے اپارٹمنٹس خریدنے لاکھوں ڈالرس دیئے جانے کا اعتراف
اسلام آباد ۔ 16 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف نے عرصہ دراز بعد کوئی بیان بھی دیا ہے تو وہ بھی متنازعہ۔ مشرف چاہتے ہیں کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو ان کے مکان میں نظربند رکھنا مناسب نہیں اور انہیں فوری رہا کئے جانے کی ضرورت ہے۔ مشرف نے دعویٰ کیا کہ حافظ سعید جو ہندوستان کو ممبئی حملوں کے کلیدی ملزم کے طور پر مطلوب ہیں، ایک ایسی این جی او چلاتے ہیں جو عوامی فلاح و بہبود کے کام انجام دیتی ہے۔ ایک پاکستانی ٹی وی چیانل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حافظ سعید کو بہرقیمت رہا کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔ ایک فلاحی این جی او چلانے والا بھلا دہشت گرد کیونکر ہوسکتا ہے۔ جب جب کوئی آفات سماوی نازل ہوتی ہے تو حافظ سعید کا ادارہ فوری حرکت میں آتے ہوئے عوام کو امداد فراہم کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (FIF) نامی فلاحی ادارہ جماعت الدعوۃ سے ملحقہ ہے جو ہمیشہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو مذہبی عقائد کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہر فلاحی کام میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے جماعت الدعوۃ طالبان کی زبردست مخالف ہے۔ جماعت الدعوۃ دنیا کے کسی بھی گوشے میں دہشت گردانہ واقعات میں ملوث نہیں ہے لہٰذا اس این جی او کے خلاف نرمی سے نمٹا جانا چاہئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ حکومت نے گذشتہ ماہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں حافظ سعید کا نام بھی شامل کیا تھا جس کے تحت سعید کے ملک چھوڑنے پر امتناع عائد کیا گیا تھا جبکہ 90 دنوں تک انہیں خود ان کے ہی مکان میں قید رکھا گیا تھا اور وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے جو ملک اور امن کیلئے خطرہ ہوسکتی تھی جب مشرف سے جماعت الدعوۃ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم اس وقت دہشت گردی کی صحیح تشریح کرنے میں الجھن کا شکار ہیں وہیں جماعت الدعوۃ اور حافظ سعید کا احترام کرنے میں بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔

مشرف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہندوستان جماعت الدعوۃ کی اس لئے مخالفت کرتا ہے کیونکہ حافظ سعید کے حامی ’’رضاکارانہ‘‘ طور پر کشمیر میں داخل ہوکر ہندوستانی فوج کے ساتھ لڑتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ 2009ء میں انہیں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود کی جانب سے کئی ملین ڈالرس دیئے گئے تھے تاکہ وہ (مشرف) لندن اور دوبئی میں اپارٹمنٹس خرید سکیں۔ مشرف نے البتہ یہ کہہ کر مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ یہ ان کا خانگی معاملہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا صوبہ پنجاب عسکریت پسندی کا مضبوط گڑھ بنتا جارہا ہے۔ دوسری طرف خود حافظ سعید نے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہیکہ ان کا نام اس فہرست سے خارج کردیا جائے جس کے تحت وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ نہ تو ملک کیلئے خطرہ ہیں اور نہ ہی ان کی این جی او کسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث رہی۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے نام تحریر کردہ ایک مکتوب میںکہا کہ جن 38 افراد کے خلاف جو یادداشت پیش کی گئی ہے حکومت کو اس سے فوری طور پر دستبردار ہوجانا چاہئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہیکہ حکومت نے گذشتہ سال حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت چیاریٹی سے وابستہ دیگر 37 قائدین کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا جبکہ حافظ سعید اور دیگر چار قائدین کو ان کے ہی مکانات میں 90 دنوں کیلئے نظربند بھی کیا گیا تھا۔ مزید برآں وزارت داخلہ نے جماعت الدعوۃ فلاح انسانیت پر چھ ماہ تک نظر رکھنے کی ہدایت بھی جاری کی تھی جس کے بعد حافظ سعید نے یہ استدلال پیش کیا تھا کہ جماعت الدعوۃ کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث نہیں ہے لہٰذا امتناع عائد کرنے کا سول ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آخر حکومت کے پاس کیا جواز ہے؟ عدالت میں حکومت ان کے (سعید) خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی تھی۔ 2008ء میں ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔