جے ڈی یو میں اختلافات

وسیمؔ کب اسے فرزانہ لوگ جانیں گے
جو عقل و ہوش کے پردوں کو خود گرالے گا
جے ڈی یو میں اختلافات
بہار کے عظیم اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد جے ڈی یو نے ریاست میں بی جے پی سے اتحاد کرتے ہوئے حکومت بنالی ہے ۔ نتیش کمار دوبارہ چیف منسٹر بن گئے ہیں تاہم جس وقت انہوں نے عظیم اتحاد کو خیرباد کہتے ہوئے بی جے پی سے اتحاد کا فیصلہ کیا تھا اس وقت سے ہی ہے کہا جا رہا تھا کہ اس فیصلے پر جے ڈی یو میں اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ ویسے تو جے ڈی یو کی دوسری ریاستی یونٹس میں اس کے خلاف بغاوت ہوچکی ہے اور بہار میں بھی کچھ قائدین نے اس پراعتراض کیا ہے لیکن خود بہار یونٹ میں یا اس کی قومی تنظیم میں موجودہ حالات کا کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا تھا ۔ بہار میں سابق ارکان پارلیمنٹ نے پارٹی کے فیصلے کے خلاف اظہار خیال کیا تھا ۔ کیرالا میں ریاستی یونٹ کے صدر و رکن پارلیمنٹ وریندر کمار نے نتیش کمار کے فیصلے کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ جے ڈی یو کے اس فیصلے کے خلاف ہیں اور پارٹی سے ترک تعلق کر رہے ہیں۔ یہ قیاس بھی کیا جا رہا تھا کہ پارٹی کے سابق صدر شرد یادو بھی نتیش کمار کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور وہ اس پر تحفظات رکھتے ہیں تاہم درمیان میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ بی جے پی کی اعلی قیادت شرد یادو کو منانے کی کوشش کر رہی ہے اور انہیں کوئی اہم ذمہ داری یا مرکزی وزارت بھی دی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد سے شرد یادو کے موقف میں نرمی دیکھنے میں آئی تھی ۔ وہ اس مسئلہ پر لب کشائی سے گریز کر رہے تھے ۔ تاہم آج انہوں نے اپنے موقف کا واضح اظہار کردیا ہے اور کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے بی جے پی سے اتحاد اور نئی حکومت کے قیام کے باوجود ہنوز مہاگٹھ بندھن کے ساتھ ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ بہار کے کروڑ ہا عوام نے جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی ۔ کانگریس اتحاد کو پانچ سال تک حکمرانی کرنے کا اختیار دیا تھا اور وہ اب بھی اسی کے ساتھ ہیں۔ اس طرح سے جے ڈی یو میں پھوٹ کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں۔ شرد یادو کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی حمایت سے بہار میں حکومت بنانے کے فیصلے سے انہیں تکلیف ہوئی ہے ۔ جے ڈی یو سینئر لیڈر گذشتہ دنوں سے دہلی میں کیمپ کئے ہوئے تھے جس سے کئی قیاس آرائیاں پیدا ہو رہی تھیں لیکن انہوں نے آج پٹنہ واپس ہوتے ہی عظیم اتحاد ہی کا حصہ رہنے کا اعلان کردیا ہے ۔
حالانکہ شرد یادو اب پارٹی کے صدر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ پارٹی کے کچھ ارکان اسمبلی ہیں۔ ان کے پارٹی موقف سے انحراف سے ریاست میں نتیش کمار کی حکومت کو کوئی خطرہ بھی فوری طور پر نظر نہیں آتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سے سکیولر اقدار کے تئیں شرد یادو کی وابستگی کا پتہ چلا ہے ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوامی مقبولیت کے معاملہ میں شرد یادو کو نتیش کمار کی طرح کا موقف حاصل نہیں ہے اور پارٹی پر بھی نتیش کمار نے اپنی گرفت پوری طرح مضبوط کر رکھی ہے اس کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی حلقوں میں شرد یادو ایک مقام رکھتے ہیں۔ ان کا ایک طویل سیاسی کیرئیر رہا ہے اور وہ قومی سطح پر بھی کئی اہم عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ ان کی رائے کی سکیولر حلقوں میں اہمیت ہے ۔ وہ ایک مرتبہ لوک سبھا انتخابات میں آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو کو مدھے پورہ حلقہ سے شکست بھی دے چکے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام میں بھی ان کا اپنا ایک مقام ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جب شرد یادو نے گذشتہ دنوں خاموشی اختیار کی ہوئی تھی اور اپنے موقف کا کھل کر واضح انداز میں اظہار نہیں کر رہے تھے اس وقت کئی طرح کی قیاس آرائیاں پیدا ہونے لگی تھیں لیکن اب انہوں نے خود واضح انداز میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے مہا گٹھ بندھن میں برقرار رہنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کے اس اعلان سے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ضرور فرق پڑسکتا ہے اور اگر وہ کوشش کریں تو پھر نتیش کمار کی حکومت کیلئے بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
اس حقیقت سے شائد خود نتیش کمار بھی انکار نہ کرسکیں کہ اس بار انہیں جو اقتدار ملا ہے وہ عوام نے کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ ملا کردیا تھا اور عوام کا فیصلہ بی جے پی کے خلاف تھا ۔ تاہم اچانک ایک ہی قلابازی میں نتیش کمار نے خود عوام کی رائے کو بدل کر رکھ دیا ہے اور انہوں نے صرف کرسی کا تحفظ کرنے کو ضروری سمجھا ۔ انہوں نے جن حالات کو مہا گٹھ بندھن سے علیحدگی کی وجہ بنایا ہے وہ صرف بے بنیاد وجوہات ہیں۔ در اصل ایسا تاثر عام ہو رہا ہے کہ نتیش کمار نے ملک میں بی جے پی کی فی الحال بڑھتی ہوئی مقبولیت اور لہر سے خوف محسوس کرنا شروع کردیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وہ بھی بی جے پی کی سرپرستی میں آجائیں تاکہ فوری طور پر ان کے سیاسی اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکے ۔ یہ ان کی انتہائی مفاد پرستی کی مثال تھی اور اس پر انہیں سبق سکھائے جانے کی ضرورت ہے ۔ اس معاملہ میں سکیولر طاقتوں کے ساتھ شرد یادو کو اب مل کر کام کرنا چاہئے۔