جنگ کے شور ش میں امن کی اپیلیں بے اثر۔ مولانا اسرار الحق قاسمی

امن کو غارت کرنے والے حکمران ہر زمانہ میں رہے ہیں اور ان کی امن دشمنی کی بھاری قیمت ہمیشہ عوام الناس کو چکانی پڑی ہے ۔ ایسے حکمرانوں کی بداعمالیاں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے خون خرابے پہلے محدود علاقوں اور ان کی آبادیوں کو ہی آلودہ اور ویران وبیان کرتے تھے لیکن موجودہ عہد میں جب جنگوں میں نیوکلیائی اسلحوں کے استعمال کوخطرہ یقینی ہے ‘ اس کے اثرات بھی بلاشبہ محدود ہ ہوکر طویل مدتی او رعالمی سطح کے ہوں گے اور شائد دنیا کے ایک قابل لحاظ حصہ کو تاراج کردینے کی اہلیت کے حامل ہوں کے ۔ بدقسمتی سے اس وقت دنیا کے کئی ملکوں میںیقیناًاللہ کی ہی جانب سے ایسے حکمراں مسلط کردئے گئے ہیں جو بدشعار اور غیرمتوازن ہونے کی وجہہ سے امن عالم کے لئے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔

شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اون او رامریکہ کے صدر ڈونالڈ مرمپ ایسے حکمرانوں کی فہرست میں بالترتیب اول او ردوم نمبر پر ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی باہمی دشمنی نئی نہیں ہے۔ لیکن دونوں جانب او ربیک وقت کم وبیش ایک ہی جیسے غیرمتوازن ‘ جنونی او رسودائی حکمراں ہونے کی وجہہ سے یہ دیرینہ دشمنی میں دوآتشہ ہوگئی ہے۔ حالات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ دونوں جانب نیوکلیائی اسلحے کے بٹن دبانے اور ایک دوسرے کو نیست ونابود اور تباہ وبرباد کردینے جیسی جنونی باتیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ سربراہان مملکت روایتی طور پر سال نو کے آغاز پر اپنے ملک ہی نہیں بلکہ نیابھر کے لوگوں کے لئے امن او رخوشحالی کا پیغام دیتے ہیں۔ لیکن شمالی کوریا کے آمرحکمراں کم جونگ اون نے اس موقع پر اپنے سالانہ خطاب میں امریکہ کو تہس نہس کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔

انہو ں نے کہاکہ’’ امریکہ کی طوری زمین ہمارے نیوکلیائی میزائلوں کی زد میں ہے او ران میزائلوں کا بٹن ہمیشہ ہی میری میز پر رہتا ہے ‘ یہی وجہہ ہے کہ امریکہ کبھی بھی مجھ سے یاہمارے ملک سے جنگ نہیں کرے گا‘ یہ میں کسی کو بلیک میل نہیں کررہاہوں بلکہ یہی سچائی ہے ‘ ہمارا ملک سب سے بڑی جوہری طاقت بن کر ابھرے گا‘‘۔ سال نو کے اس پیغام کے ساتھ میزائل داغنے کے کئی ویڈیوبھی دکھائے گئے تھے۔امریکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جوڈکٹیٹر نہیں بلکہ جمہوری طور پر منتخب سربراہ مملکت ہیں اس دھمکی کا جواب کن لفظوں میں دیا ‘یہ بھی غلط ملاحظہ فرمائیں۔

انہو ں نے کہاکہ ’’ شمالی کوریہ کے لیڈر کم جونگ اون نے کہاکہ ان کی میز پر ہمیشہ نیوکلیائی اسلحے کا بٹن موجود رہتا ہے۔ان کے کمزور اور فاقہ کشی میں مبتلا ملک میں سے کوئی انہیں بتائے کہ میرے پاس نیوکلیائی بٹن ہے جو ان کے بٹن سے بہت طاقتوں ر ہے اور ساتھ ہی میرا نیوکلیائی بٹن کام بھی کرتا ہے‘‘۔امریکہ کے ذریعہ سرکش قراردئے جانے والے ملک شمالی کوریا کی جانب سے یہ بات خاص طور پر منظرعام لائی گئی تھی کہ وہ 2018میں بھی اپنی جوہری پروگرا م جاری رکھے گا او راپنے ایٹمی اسلحہ جات کی ترقی کا عمل کو بھی برقرار رکھے گا تاکہ ملک میں ایک ناقابل تسخیر ایٹمی طاقت کے طور پر ابھرے۔

ایک ناقابل تسخیر ایٹمی قوت کی شکل میں شمالی کوریا کے وجود کو کمزور کیاجاسکتا ہے او رنہ ہی نظر انداز کیاجاسکتا ہے ۔ اور ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت کے طور پر شمالی کوریا تمام رکاوٹوں کو پا ر کرتے ہوئے آزادی اور انصاف کے راستے پر چلے گا۔ شمالی کوریا نے گذشتہ سال ستمبرمیں اپنے سب سے طاقتور ایٹمی اسلحے کا تجربہ کیاتھا اور اسے اپنے ملک کے ایک بڑی کامیابی قراردیا تھا ۔ اس کے بعد نومبر میں بھی اس نے سب سے ترقی یافتہ براعظمی بلیسٹک میزائل کا بھی تجربہ کیاجو بقول شمالی کوریا امریکہ میں کسی بھی نشانے تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ حالات اور دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے بیانات یقیناًخوف پیدا کرتے ہیں‘ کیونکہ ان دنوں سربراہوں میں سے کوئی بھی محمل و بردباری کاپیکر نہیں بلکہ دنوں ہی غیرمتوازن فیصلے کرنے کے لئے خاصی شہر ت رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یا درکھناہوگا کہ یہ ممکنہ جنگ جس کے بادل منڈلا رہے ہیں ایٹمی جنگ ہوگی‘ جس کے طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں اور وہ ممالک او رعلاقے بھی اس کی بالواسطہ زد میںآجاتے ہیں جو براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔

اگر کسی ایک کی ناسمجھی سے بھی اگر خدانخواستہ جنگ شروع ہوگئی تو یہ لمحہ بھر میں دنیاکے ایک بڑے حصہ کو تہ وبلاکردے گی او راس جنگ میںیقینی طور پر روس او رچین جیسے ممالک بھی اپنے اپنے مفادات کے لئے شامل ہوجائیں گے ۔ چین کھلے طور پر شمالی کوریا کا ساتھ ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا شدیدمخالف رہا ہے ۔ گذشتہ دنوں صدر ٹرمپ نے چین کونشانہ بناکر اسے مزیداکسادیا۔ٹرمپ کا ایک ٹوئٹ میں چین پر کچھ اس طرح نشانہ سادھا ’’ رنگے ہاتھ پکڑا گیا‘ بے حد افسوسناک بات ہے کہ چین شمالی کوریا کو تیل لے جانے دے رہا ہے اگر ایسا ہوتا رہاتو شمالی کوریا کے مسئلہ کا بھی حل نہیں نکالاجاسکتا ہے‘‘۔

ادھربشمول ایران دنیا کے مختلف ملک میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے پیش نظر روس بھی اب امریکہ کے پر کترنا ضروری سمجھ رہا ہے۔صدر ٹرمپ کے کچھ اورحالیہ بیانات او راقدامات نے بھی دنیاکو بھی بدامنی کی طرف مزیددھکیلنے میں مدد کی ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے او رامریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے ان کے فیصلے سے مشرقی وسطی کے حالات مزیدخراب ہونگے‘ قتل وغارت گری او رخون خرابے میں اضافہ ہوگا او ر جنگ وجدال کے حالات پیدا ہوں گے ۔ اس فیصلے سے دنیا کے بیشتر ممالک جن میں بڑی تعداد امریکہ کے حلیف ملکوں کی بھی ہے ناخوش ہیں جن میں ہندوستان بھی شامل ہے۔پوری دنیااب اس بات کو بخوبی محسوس کررہی ہے کہ کم جونگ اور ٹرمپ جیسے حکمراں دنیا کو تیزی سے جنگ کی طرف لے جارہے ہیں۔

جنگ کے خطراب کو محسوس کرکے بعض مذہبی قائدین بے شک امن کی اپیل کررہے ہیں لیکن ان کی آوازیں جنگ وجدال کے ماحول میں گم ہوتی جارہی ہیں۔کرسمس کے موقع پر اپنے روایتی پیغام میں پوٹ فرانسیس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ دنیامیں جنگ کی ہوائیں بہہ رہی ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کے یروشلم سے متعلق فیصلے اور شمالی کوریا سے امریکہ کے ٹکراؤ کا خاص طور پر ذکر کیااور کہاکہ اس وقت دنیاکو امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انہو ں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دوملکی حل پرزوردیا او رکہاکہ کوریا سے ٹکراؤ کی بات چیت سے دور کیاجانا چاہئے۔

اسی طرح انہو ں نے شام کی ابتر صورتحال او ربنگلہ دیش میں روہنگیائی مسلمانوں کی حالت زار پرافسوس ظاہرکیاجو جنگ کے نتیجہ میں ہی قبل رحم زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔اسی طرح بودھ مذہبی رہنما دلائی لامہ اور دیگر متعدد شخصیتوں نے بھی دنیامیں جنگ کے منڈلاتے ہوئے سائے کونہ صرف محسوس کرلیا ‘ بلکہ انہو ں نے سخت تشویش بھی ظاہر کی ہے ۔ وہ سیاسی رہنماؤں سے برابر امن کے لئے کوششیں کرنے کی اپیل کررہے ہںی۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ دنیاکو جنگ کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ جنگ کے آستینیں چڑھانے کی۔ لیکن امن کی یہ تمام اپیلیں ضائع ہورہی ہیں۔ سیاسی قائدین پر ان اپیلوں کاکوئی اثر نہیں ہورہا ہے جس کے نتیجے میں دنیاقدم بہ قدم جنگ کی طرف بڑھتی جارہی ہے ۔ خدا کرے کہ جنگ کا موجودہ خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹل جائے او رہمارے قائدین دنیاکے بے شمار وسائل کو بروئے کار لاکر انسانیتکی خدمت کواپناشعار بنائیں۔