جنگل کا بادشاہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ یہ شیر بڑا خونخوار تھا۔ اس نے آس پاس کے سارے چھوٹے موٹے جانور ایک ایک کرکے کھالئے ۔ بچو!یوں سمجھو کہ جنگل تقریبا خالی ہوگیا ۔ باقی جو جانور بچے، وہ اپنی جان بچا کر بھاگ گئے۔ اب شیر جنگل میں اکیلارہ گیا ۔ پہلے پہل تو وہ بہت خوش ہوا کہ پورا جنگل اس کے گھومنے پھرنے کیلئے خالی پڑا تھا۔ وہ مزے سے دھاڑتا پھرتا لیکن ابھی دو ہی دن گزرے تھے کہ بھوک کے مارے اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے۔ کھائے تو کیا کھائے؟شیر جنگل میں تنہا رہ گیا تو گھبرانے لگا، ہر طرف سناٹا تھا وہ کسی سے بات نہ کرسکتا تھا۔ سارا دن جنگل میں بے مقصد پھرتا رہتا ۔
رات ہوتی تو افسردہ ہوجاتا اور سوچتا میں نے معصوم جانوروں پر ظلم کر کے اچھا نہیں کیا۔ اب مجھے تنہائی کی سزا کاٹنی پڑ رہی ہے۔ شیر نے اسی طرح تنہا جنگل میں کافی دن گزار دیئے۔ کبھی کبھار بھولے بھٹکے کوئی جانور آجاتا تو بھوک سے پریشان ہوکر اسے کھا لیتا ۔ ورنہ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ ایسا نہیں کرے گا۔ پھر ایک دن اسے خیال آیا کہ یہ جنگل چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔ یہ سوچ کر وہ ایک راستے پر چلنے لگا ۔ کئی دن چلتے چلتے وہ ایک گاوں میں پہنچا۔ وہاں مویشی اور انسانوں کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور سوچنے لگا کہ اب یہاں سے نہیں جاوں گا اور سب سے دوستی کروں گا۔ اگر کسی نے بچا کچھا کھانا دے دیا تو کھا کر بھوک مٹاؤں گا۔ جب وہ گاوں کے اندر داخل ہوا تو وہاں گائیں، بھینسیں چر رہی تھیں شیر کو دیکھ کر وہ دم دبا کر بھاگ گئیں۔ شیر کی بات دل ہی میں رہ گئی میں تمہیں کھاوں گا نہیں بلکہ تم سے دوستی کروں گا ۔ اس طرح وہ جہاں بھی جاتا لوگ شور مچاتے ہوئے بھاگ جاتے ۔

ایک دن شیر ایک کھیت میں پہنچا۔ کسان کھیتوں کو پانی دے رہا تھا۔ اسی وقت اس کی بیوی کسان کے لئے کھانا لے کر آگئی وہ مویشیوں کیلئے چارہ تیار کر کے ٹن کے ایک بڑے کنستر میں ڈالنے جارہی تھی کہ اس کی نظر شیر پر پڑی ۔ کسان نے بھی شیر کو دیکھا۔ دونوں کو کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ کنستر شیر کے گلے میں ڈال دیا ، اس کے سر میں کنستر پھنسنے کی وجہ سے اُسے گھبراہٹ بھی ہورہی تھی۔ کیچڑ ، پانی میں گرتا ہوا وہ بھاگا جارہا تھا راستہ میں جو لوگ ملتے وہ سمجھتے شائد کوئی بلا آگئی ہے۔ ادھر شیر کا برا حال تھا۔ آخر وہ درختوں کے ایک جھنڈ کے پاس پہنچا ۔ اسے اندازہ ہوا کہ یہاں کچھ مضبوط درخت ہیں ۔ ایک درخت کے تنے سے کنستر کو پھنسا کر بہ مشکل اپنا سر باہر نکالا۔ آزاد ہوتے ہی سیدھا جنگل کی راہ لی اور اپنے پرانے ٹھکانے پر آگیا،سوچنے لگا ۔ دوستی میری لئے پریشانی کا باعث بن گئی کیونکہ میرا کردار ایسا ہے کہ لوگ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ مجھے ظالم درندہ سمجھتے ہیں تو میرے لئے تنہائی ہی بہتر ہے ۔ اس نے توبہ ضرور کرلی کہ وہ بلاوجہ معصوم جانوروں کا شکار نہیں کرے گا ۔ اب اسے جو کچھ مل جاتا کھالیتا اور شکر ادا کرتا ۔ آہستہ آہستہ سارے جانور جو کہ شیر کی وجہ سے جنگل چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ واپس آنے لگے اور شیر کی تنہائی بھی دور ہوگئی۔