جنسی ہراسانی کے الزامات

ملک بھر میں گذشتہ کچھ دنوں سے جنسی ہراسانی کے الزامات کا ایسا لگتا ہے کہ ایک سلسلہ سا شروع ہوگیا ہے ۔ ان الزامات کی شروعات اداکارہ تنوشری دتہ کی جانب سے اداکار نانا پاٹیکر کے خلاف الزامات سے ہوئی تھی ۔ اداکارہ کا الزام تھا کہ 10 برس قبل ایک فلمی گیت کی شوٹنگ کے دوران نانا پاٹیکر نے ان کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے کی کوشش کی تھی اوراس وجہ سے وہ فلمی دنیا سے دور ہوگئی تھیں۔ اب وہ باضابطہ طور پر شکایت بھی درج کرواچکی ہیں اور پولیس میں اپنا بیان بھی انہوں نے قلمبند کروادیا ہے ۔ تنوشری دتہ کے بعد ایک کے بعد دیگرے کئی خواتین اور لڑکیوں نے اس طرح کے الزامات عائد کرنے شروع کردئے ۔ فلمی دنیا ان الزامات سے دہل کر رہ گئی ہے ۔ کئی اہم اور بڑے فلم سازوں ‘ ڈائرکٹرس اور اداکاروں کے خلاف یہ الزامات سامنے آئے ہیں اور اب تو یہ فلمی دنیا سے باہر بھی دھوم مچانے لگے ہیں۔ سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ان الزامات میں اب مرکزی وزیر ایم جے اکبر بن گئے ہیں جن پر کچھ خواتین نے الزام عائد کیا کہ ایم جے اکبر جب صحافی کیرئیر میں تھے انہوں نے دو اخبارات کے ایڈیٹر رہتے ہوئے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا ۔ ایم جے اکبر مودی حکومت میں منسٹر آف اسٹیٹ خارجہ ہیں اور جب ان پر یہ الزامات عائد کئے گئے وہ افریقی ممالک کے دورہ پر تھے ۔ اب وہ وطن واپس ہوچکے ہیں اور خود پر عائد الزامات کو انہوں نے غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مستردکردیا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان الزامات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر بھی غور کرینگے ۔ یہ الزامات جس نوعیت کے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہیں ۔ اس طرح کے الزامات پر خواتین کو نشانہ بنانا درست نہیںہوسکتا اور جو خواتین الزامات عائد کر رہی ہیں ان کی آزادانہ تحقیقات کا موقع دینا ضروری ہے ۔ جس شخص کے خلاف الزامات عائد کئے جائیں اگر وہی ان پر جج بن جائے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے لگے تو پھر یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس سے الزامات کی سچائی کا پتہ چلایا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک حکومت کا سوال ہے وہ اس حساس نوعیت کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ حکومت نے نہ فلمی دنیا میں عائد ہونے والے الزامات پر اپنے موقف کو واضح کیا ہے اور نہ اپنے وزیر کے خلاف الزامات کی کوئی وضاحت کی ہے ۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ ایم جے اکبر کی بیرونی دورہ سے واپسی کے بعد انہیں خود سے مستعفی ہونے کا موقع دیا جائیگا لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا ہے اور ایم جے اکبر اپنے بیان کی اجرائی کے بعد خود مطمئن ہوچکے ہیں۔ حکومت کو خواتین کے مسائل سے اگر واقعی دلچسپی ہو اور وہ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور مظالم کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اس مسئلہ پر ایک واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی وزیر منیکا گاندھی نے تو خواتین کی جانب سے عائد کئے جانے والے تمام الزامات کے درست ہونے کا یقین ظاہر کیا تھا ۔ انہوں نے چار رکنی کمیٹی بناتے ہوئے ان الزامات کا جائزہ لینے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا تھا ۔ ایک اور مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے عملا گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایم جے اکبر کو خود اس پر تبصرہ کرنا چاہئے ۔ یہ حکومتوں کا موقف نہیں ہوسکتا ۔ یہ شخصی موقف ہوسکتا ہے اور حکومت کو اپنے موقف کو واضح کرنا چاہئے ۔ ملک میں خواتین کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا اور ان کے وقار کو مجروح ہونے سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ اسے بہرحال پوری کرنی چاہئے ۔
یہ ضروری نہیں کہ جتنے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں وہ سب کے سب درست ہی ہوں اور ان پر فوری کارروائی بھی کردی جائے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بیشتر الزامات درست ہیں اور ان کی جانچ تو ضرورہی ہونی چاہئے ۔ جانچ اور تحقیقات کا کام ملک کی تحقیقاتی ایجنسیوں کو اور پولیس کو کرنا چاہئے ۔ اس کے بعد ہی غیر جانبداری سے جائزہ لیتے ہوئے ان الزامات کے تعلق سے کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت اس مسئلہ سے خود کو لا تعلق ہی رکھنا چاہتی ہے ۔ وہ اس پر کسی طرح کی وضاحت کرنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی الزامات کا سامنا کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہی ہو رہی ہیں۔ ان سے خواتین اور ان کے مسائل کے تئیں مودی حکومت کی سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے ۔ خواتین کے معاملہ میں حکومت کے دوہرے معیارات اس معاملہ میں پوری طرح عیاں ہوگئے ہیں۔