جناح کو ہی کیوں نشانہ بنایاجارہا ہے جبکہ تلک اور ساورکر بھی دوقومی نظریہ کے محرک تھے

حقیقت میں ہ بات قابل قبول ہوگی کہ ایک خود ساختہ ثقافتی تنظیم اس ملک میں سیاسی بقاء کے لئے 90سالوں تک جدوجہد کی ہے ‘ جب وہ اپنے مقصد کو پورا کرلیتی ہے تو اس کے پاس قوم کو دینے کے لئے تشدد اور شدت پسندی سوائے دوسری کچھ او رچیز نہیں رہتی۔

روزبہ روزیہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ ہندوتوا نہ تو کلچرل میں تازگی پیدا کرنے کے نظریہ پر کام کررہی ہے اور نہ ہی ملک کی تعمیرمیں کام کیاجارہا ہے اور بیماری کی طرف قوم کولے جانے کاکام کیاجارہا ہے۔

کئی واقعات میں عصمت ریزی کرنے والوں کی حمایت کرتے ہوئے آر ایس ایس کے فالورس اپنے اس وعدے کو فراموش کرچکے ہیں جس میں ملک کو وقار بخشنے کی بات کہی تھی اور متبادل سیاست کی فراہمی کے ذریعہ تمام شعبہ حیات میں ناکام بھی ہوگئے۔

اور اب دوقومی نظریہ کے شیطان کا احیاء عمل میں لاتے ہوئے ثابت کردیا ہے کہ انہو ں نے برصغیر کی تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا او رنہ ہی یوگوسلویہ سے کچھ سیکھا جو آج بھی دنیا کے نقشے سے محض اس لئے الگ تھلگ پڑا ہوا ہے کیونکہ وہا ں پرنسل کی بنیاد پر قومیت کو فروغ دیاجاتا ہے۔

یہ اچھا نہیں لگتا ہے کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر اپنی شناخت بنانے والے مسٹر جناح کی تصوئیر کو یونیورسٹی کے یونین حال سے نکالنے کا مطالبہ کیاجارہا ہے کیونکہ اسی نظریہ کے حامل بال گنگادھر تلک اور ونائک دامودر ساورکر بھی تھے۔

یہ بڑی منافقت ہوگی۔جناح پر سے ملک کو تقسیم کرنے کا الزام اس وقت ہٹ گیا جب ممتاز اسکالرس اور لیڈرس بشمول بی جے پی قائد لال کرشنا اڈوانی اور اس کے سابق نائب صدرجمہوریہ جسونت سنگھ ایک مرتبہ جناح کا جشن منایاتھا ۔

ان لوگوں نے اپنے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیاتھا کہ ہند و مسلم اتحاد کے سفیرمحمدعلی جناح اس وقت کے قومی قائدین کے رویہ کے سبب بہت بعد میں دوقومی نظریہ اور پاکستان کی سونچ کے حامی بنے۔

جناح کو ڈر تھا کہ ہندتوا کے ماہرین کی وجہہ سے آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکے گا۔ جس طرح ہندوتوا کے لوگ حملہ کررہے ہیں’ مسلمانوں ‘ کو راست نشانہ بنارہے ہیں اس سے جناح کی سونچ صحیح ثابت ہورہی ہے۔

اس قسم کے واقعات سے یہ بھی با ت صاف ہوگئی ہے کہ طبقے کے قائدین کے پاس ہندو ووٹ پولرائزیشن کے علاوہ الیکشن جیتنے کے لئے کچھ او رنہیں ہے۔ وہ جب چاہیں گے اپنے مفاد کے لئے ہندوستان کو لولہان کردیں گے۔ جناح تو ایک بہاؤ ہے۔