جموں و کشمیر میں گورنر راج کی برقراری

مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی نے اپنے عزائم واضح کردئے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر میں گورنر راج کو مزید کچھ وقت تک طوالت دینا چاہتی ہے ۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے بعد پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے مخلوط حکومت تشکیل دی تھی ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ دونوں جماعتوں نے اقتدار سنبھالا لیکن ایک دن اچانک ہی بی جے پی صدر امیت شاہ نے پی ڈی پی حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ریاست میں محبوبہ مفتی کی حکومت کو زوال کا شکار ہونا پڑا ہے ۔ اس کے بعد سے ریاست میں گورنر راج ہے ۔ اس سارے معاملہ کو اپوزیشن جماعتوں اور دیگر گوشوں کی جانب سے بی جے پی کی منصوبہ بند سازش قرار دیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی ریاست میں پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں حصہ داری حاصل کرتے ہوئے بھی بی جے پی نے اپنے موقف سے انحراف کیا تھا اور دوہرا معیار اختیار کیا تھا ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے اس وقت بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پی ڈی پی سے اتحاد کیا تھا تاکہ حکومت کے کام کاج میںاس کا عمل دخل ہوجائے ۔ سرکاری عہدوں پر اپنے من پسند عہدیداروں کا تقرر کرلیا جائے پھر ریاست میں محبوبہ مفتی حکومت کو بیدخل کردیا جائے ۔ اس منصوبہ پر بی جے پی نے اپنے انداز میں عمل آوری کی اور اب اپنے منصوبہ کے تحت ستیہ پال ملک کو ریاست کا گورنر نامزد کردیا ۔ اس طرح بی جے پی اور مرکزی حکومت نے ریاست میں اپنا بالواسطہ اقتدار بنالیا ہے اور وہ منتخبہ حکومت کے قیام میں مزید تاخیر کرتے ہوئے اپنے عزائم اور منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔ بی جے پی لیڈر رام مادھو نے ایک بیان دیتے ہوئے پارٹی کے ارادے واضح کئے کہ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ ریاست میں مزید کچھ وقت تک گورنر راج برقرار رہے ۔ اس مدت کے دوران بھی بی جے پی نے اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کا عزم رکھتی ہے اور اسی لئے وہ عوام کو ایک منتخبہ حکومت کے حق سے محروم رکھنے کے فیصلے پر عمل کر رہی ہے ۔
رام مادھو کا یہ کہنا کہ ان کی پارٹی نے ریاست میں صدر راج کو مزید کچھ وقت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ان کے عزائم اور منصوبوں کو آشکار کرتا ہے کیونکہ کسی بھی پارٹی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ریاست میں انتخابات یا صدر راج کے تعلق سے کوئی فیصلہ کرے ۔ اس تعلق سے کوئی بھی فیصلہ کرنا مرکزی حکومت کا کام ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت بھی بی جے پی کی ہی ہے لیکن رام مادھو کا کہنا تھا یہ فیصلہ پارٹی نے کیا ہے حکومت نے نہیں۔ اس سے جو شکوک بی جے پی کے ارادوں اور منصوبوں کے تعلق سے پیدا ہوئے ہیں انہیں مزید تقویت حاصل ہوجاتی ہے کہ بی جے پی یہاں پچھلے دروازے سے جاری اپنے اقتدار کو مزید طوالت دیتے ہوئے اپنے عزائم اور منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے لئے پارٹی ریاست کے عوام کو ان کے جمہوری اور دستوری حق سے محروم کر رہی ہے ۔ عوام کو جن مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے ‘ ریاست کی جو صورتحال ہے ان سب کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک جمہوری طور پر منتخبہ حکومت کو ہی عوام کے مسائل کو حل کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ ریاست میں عسکریت پسندی کی صورتحال بھی اتنی سنگین نہیں ہے کہ وہاں انتخابات کو ٹالا جائے اور سکیوریٹی وجوہات کی بنیاد پر صدر راج یا گورنر راج کو طوالت دی جائے ۔
انتظامی ‘ سکیوریٹی یا دیگر وجوہات کی بنا پر اگر کسی ریاست میں صدر راج یا گورنر راج لاگو کیا جاتا ہے اور اس کے دورانیہ میں اضافہ کیا جاتا ہے تو یہ بات قابل قبول ہوسکتی ہے اور اس کے فیصلے بھی حکومتوں کو کرنے ہوتے ہیں کسی سیاسی جماعت کو اس کا اختیار ہرگز حاصل نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے پیش نظر محض اپنے ادنی سے سیاسی مفادات ہوتے ہیںاور انہیں عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کی فکر لاحق نہیں ہوتی ۔ کشمیر میں بھی سیاسی مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے بی جے پی نے یہ طریقہ کار اختیار کیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت ریاست کے حالات کا جائزہ لے ۔ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے اور وہاں تازہ ترین انتخابات منعقد کرنے کے امکانات جائزہ لے اور انتخابات کروائے ۔