جموں و کشمیر اسمبلی کی تحلیل

اِک عمر کا عذاب ہے ناداں کی دوستی
خانہ خراب ہوگئے وہ جن کو لگ گئی
جموں و کشمیر اسمبلی کی تحلیل
جموں و کشمیر اسمبلی کو بالآخر تحلیل کردیا گیا ۔ ریاست میں صدر راج نافذ کردیا گیا تھا اور اسمبلی کو معرض التوا میں رکھا گیا تھا ۔ اب ریاست میں ایک بار پھر عوامی منتخبہ حکومت کے قیام کی کوششیں در پردہ شروع ہوئی تھیں۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ ریاست کی دو اصل حریف جماعتیں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس آپس میں اتحاد کرتے ہوئے حکومت تشکیل دینگی ۔ یہ بھی امکانات ظاہر کئے جار ہے تھے کہ کسی بھی اتحاد کو کانگریس کی تائید بھی حاصل ہوسکتی ہے اور جموں و کشمیر میں ایک عظیم اتحاد جیسی صورتحال پیدا ہوجائیگی ۔ تاہم اچانک ہی اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا اور سیاسی طور پر عوام کو راحت پہونچانے کی جو کوششیں شروع ہوئی تھیں انہیں ابتداء ہی میں ناکامی سے دوچار کردیا گیا ہے ۔ حالات کا اندازہ اس وقت سے لگنا شروع ہوگیا تھا جس وقت آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے یہ کہا تھا کہ ان کی پارٹی نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ریاست میں مزید کچھ دن صدر راج یا گورنر راج ہونا چاہئے ۔ حالانکہ کسی بھی ریاست میں صدر راج یا گورنر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نہیں کیا جاتا بھلے ہی وہ جماعت ملک اور ریاست میں برسر اقتدار کیوں نہ ہو۔ صدر راج یا اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ منتخبہ حکومتوں کی جانب سے کیا جاتا ہے اور حکومتیں اس تعلق سے تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کرتی ہیں لیکن رام مادھو کے بیان سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ ریاست میں اسے پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل رہے ۔ اسی لئے ستیہ پال ملک کو بہار سے لا کر ریاست میں گورنر بنایا گیا اور اب اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کردیا گیا ۔ بی جے پی اس طرح سے ریاست میں اپنے مفادات اور عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے مرکز میں اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کر رہی ہے ۔ بی جے پی اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کیلئے ریاست کے عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہی ہے کیونکہ کسی بھی ریاست کے عوام کو اپنے طور پر کسی حکومت کو منتخب کرنے اور اسے پانچ سالہ اقتدار سونپنے کا کامل اختیار حاصل ہے ۔
سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے دستوری عہدوں کا بیجا استعمال کرنا یا پھر اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرنا انتہائی معیوب عمل ہے ۔ تاہم جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے وہ مسلسل ایسا کرتی جا رہی ہے اور تقریبا ہر ریاست میں جو گورنر بی جے پی کی جانب سے مقرر کئے گئے ہیں ان پر ریاستی جماعتیں جانبداری برتنے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ گورنرس مرکز کے لئے کام کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ ریاستی حکومتوں کو نیچا دکھانے میں زیادہ سرگرم ہیں۔ یہ الزامات کئی گوشوں کی جانب سے عائد کئے گئے ہیں حالانکہ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے لیکن کسی طرح کا جواب بھی اکثر نہیں دیا گیا ہے ۔ بی جے پی نے جموں و کشمیر میں ایک طرح سے پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کا منصوبہ بہت پہلے بنا رکھا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اسمبلی انتخابات کے بعد پی ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی اور حکومت نے حصہ داری بھی حاصل کرلی تھی ۔ حالانکہ دونوں جماعتوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ پی ڈی پی افضل گرو کو شہید قرار دیتی ہے اور بی جے پی انہیں دہشت گرد قرار دیتی ہے ۔ اس تضاد کے باوجود محض اقتدار میں حصہ داری اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلئے بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بنائی تھی اور جب اس نے ایک حد تک اپنی گرفت بنالی تھی تو پھر حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی اور اب اسمبلی بھی تحلیل کردی گئی ۔
اب جبکہ ریاست میں اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے تو باضابطہ گورنر راج کو تقویت مل گئی ہے تاہم مرکز کی نریندر مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ ریاست کے عوام کو زیادہ عرصہ تک ان کے جمہوری حق سے محروم نہ کرے اور ریاست میں جلدا ز جلد اسمبلی انتخابات کا اعلان کرے تاکہ ایک بار پھر وہاں عوام کی منتخبہ حکومت عوام کیلئے کام کاج کا آغاز کرسکے ۔ ریاستی سیاسی جماعتوں کو عوام سے دوبارہ رجوع ہونے کا موقع دیا جانا چاہئے اور ریاست کے عوام کو بھی یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق ایک منشور اور ایجنڈہ رکھنے والی جماعت کو اپنے لئے منتخب کریں تاکہ ریاست میں جو حالات پیدا ہوگئے ہیں انہیں سدھارا جاسکے ۔ عوام کا جمہوریت میں جو یقین بن گیا ہے اسے متزلزل ہونے سے بچایا جاسکے ۔