جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم

نقش قدم کی روشنی منزل شناس ہے
یہ جس کو مل گیا اسے حق کا پتہ ملا
جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت پیغمبر محمد ﷺ کی ولادت مبارکہ کی خوشی و مسرت میں ہر سال مسلمانوں کی اکثریت جشن میلاد مناتی ہے ۔ آج بھی میلاد النبیؐ کے موقع پر دنیا کے مختلف حصوں بالخصوص ہندوستان میں مذہبی جلسوں اور نعت کی محفلوں کے علاوہ غرباء و مساکین میں تناول طعام کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ احادیث شریفہ بیان کرتے ہوئے امت مسلمہ کو حضور ﷺ کی تعلیمات اور اسلامی طرز زندگی کے بارے میں دہرایا جاتا رہا ہے ۔ مساجد میں فضائل اعمال کے عنوان سے احادیث شریفہ کو سنایا جاکر مسلمانوں کو اسلام اور امت مسلمہ کی اہمیت و افادیت کے بارے میں واقف کروایا جاتا رہا ہے ۔ ہم مسلمان خاص موقع پر ہی احادیث شریفہ کا مطالعہ کرتے ہیں یا ان کی سماعت کرتے ہوئے حضور اکرم ؐپر لاکھوں درود و سلام گذرانتے ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور ان احادیث سے دور اپنی زندگی گذارنے والے مسلمان بھی موجود ہیں جنہیں اسلام ، دین سے دور کا واسطہ بھی نہیں معلوم ہوتا ۔ ایسے لوگ پہلے بھی تھے آج بھی ہیں ۔ انہیں راہ راست پر لانے کے لیے کوشاں تبلیغ اسلام میں مصروف گروپ بھی روزانہ گشتی ذمہ داریاں بھی انجام دیتے آرہے ہیں ۔ دین کی حفاظت اور اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی کا مشعل راہ بنانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر ان کے وجود کو اپنے مستقبل کے لیے خطرہ محسوس کرنے والی طاقتیں ہر دم ان کے تعاقب میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے کوئی موقع ضائع نہیں کررہے ہیں ۔ دنیا کے معاملات میں مسلمانوں کو کمزور بنائے رکھنے کی سازشیں ہوتی ہیں ۔ گذشتہ کئی دہوں سے مسلمانوں اور عالم اسلام کو دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ ہندوستان میں فرقہ پرستانہ ماحول اور نفرت کا بازار گرم ہے ۔ مسلمانوں کو انتہا پسند قرار دے کر انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے ۔ ان واقعات کی وجوہات پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہم بحیثیت مسلمان اسوہ حسنہ پر چلنے والے کتنے ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات پر کتنے گامزن ہیں ۔ اس کا جائزہ لیں تو اس میں افسوس ناک تعداد ہی سامنے آئے گی ۔ مسلمانوں میں اختلافات ، باہمی خون ریزی کے ساتھ داخلی مسائل اور مشکلات پیدا ہورہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے مقررہ اصولوں سے دور ہونے اور حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کو فراموش کرنے کے جو نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔ آج یہ سب تمام کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ امت مسلمہ کی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے والوں نے اب نئے فتنہ شروع کردئیے ہیں ۔ ان فتنوں سے بچا جانے کے بجائے انہیں شوق سے دیکھا اور اختیار کیا جارہا ہے یعنی آج الیکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ کئی فتنے پیدا کردئیے جارہے ہیں ۔ گستاخانہ واقعات کو یوں پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس طرح کے واقعات کو یقین سمجھ کر منتشر ہوتے جارہے ہیں ۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی صورتحال ماضی سے زیادہ ابتر ہوتے جارہی ہے ۔ مسلم حکمرانوں نے بھی خود کو مغربیت کے تابع کرلیا ہے ۔ یہ ایک ایسا افسوسناک المیہ ہے کہ آج ساری دنیا میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کے بجائے یہ مسلم اسلامی ملکوں کے حکمراں مغرب کی غلامی میں مست ہیں ۔ یہ ایک ایسی درد ناک صورتحال ہے اس سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام میں بڑے پیمانہ پر تبدیلی آجائے اور یہ تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب مسلمانوں کو اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنے دینی ، دنیوی معاملات کو حضور اکرم ؐ کی طرز زندگی کے آئینہ میں حل کرنے کی کوشش کرے ۔ اگر مسلم یا اسلامی ممالک میں حضور اکرم ﷺ کے لائے گئے معاشی ، سیاسی ، قانونی ، عدلیہ ، تعلیمی اور سماجی نظام کو نافذ کردیا جائے تو اس پر عملی طور پر کام کیا جائے تو بلا شبہ اس کے برکات اور فیض ساری امت مسلمہ کو ملے گا ۔ لیکن ایسا تب ہوگا جب اسلامی مملکتوں کے ذمہ داران اپنی اہمیت کو سمجھیں اور فرائض کی جانب توجہ دے کر غور و فکر کریں ۔ سیاسی اختلافات نے آج مسلم حکمرانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے تو یہ اثر امت مسلمہ کے اندر لعنت بن کر سرعت کرتا جارہا ہے ۔ اس لعنت کو روکنے اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ حضور اکرم ﷺ سے سچی محبت و عقیدت کا ثبوت دیتے ہوئے اخلاقی انحطاط کو ختم کر کے ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کا عہد کریں ۔ آج کے دن مسلمانوں کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات پر عملی طور پر کام کرتے ہوئے فیوض و برکات سے استفادہ کریں گے ۔