جشن سال نو فکراسلامی کے تناظرمیں

سنہ عیسوی کے مطابق قدیم سال کے اختتام اورنئے سال کے آغازیعنی ۳۱؍ڈسمبراوریکم جنوری کی درمیانی شب ٹھیک ۱۲؍بجے سال نوکی آمدکی خوشی میں جشن منائے جانے کا رواج ہے،محققین کی رائے کے مطابق نئے سال کی آمدکی خوشی میں جشن سال نو کا آغاز یکم جنوری ۱۶۰۰؁ء سے شروع ہوا۔عیسائی مذہب کے ماننے والوں نے میلاد مسیح کے عنوان سے اس جشن کی داغ بیل ڈالی تھی،آگے چل کر عیسائی وغیرعیسائی کی تخصیص کے بغیریہ جشن منائے جانے لگا،اوراب یہ مغربی تہذیب کاحصہ بن چکاہے۔برقی قمقموں کی روشنی ،ظاہری سجاوٹ ،رنگارنگ تقاریب خواہشات نفس کے اسیروں کو دعوت نظارہ د یتی ہیں۔شراب نوشی ، اجنبی عورتوں ومردوں کا اختلاط، مسرت وخوشی کے تبادلہ میں غیراخلاقی حرکات وسکنات کا اظہار شرم وحیاء ،عفت وعصمت اورپاکدامنی جیسی اعلی قدروں کی اس جشن میں دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔دنیابھرمیں اس جشن نے اخلاقی زوال کوفروغ دینے میں بڑارول اداکیاہے،سارے عالم میں کئی ایک مذاہب کے ماننے والے موجودہیں ،ہرقوم ومذہب کے ہاں خوشی ومسرت کے تہوارمنائے جاتے ہیں ،جتنے آسمانی مذاہب دنیامیں آئے ہیںان میں خوشی ومسرت کے مواقع کی بھرپوررعایت ملتی ہے،لیکن ان کے ماننے والوں کی من چاہی تحریف کے بعداللہ سبحانہ نے ان مذاہب ہی کومنسوخ فرمادیا ہے اوراب صرف شریعت محمدی ﷺ ہی حقیقی آسمانی مذہب ہے۔سیدنامحمدرسول اللہ ﷺکی بعثت مبارکہ کے بعد اب اسلام کے سواکسی اور آسمانی مذہب کی حقانیت باقی ہی نہیں رہی،اسلام نے زندگی کے سارے شعبوں میں انسانی مزاج وطبیعت کابڑالحاظ رکھاہے، خوشی ومسرت کے فطری تقاضوں کی تکمیل کیلئے امت مسلمہ کو’’عیدالفطروعیدالاضحی ‘‘جیسے مسرت بھرے لمحات بخشے گئے ہیں جس میں عبادت وبندگی کی بجاآوری کا خوب اہتمام ہوتاہے ، اسلام کے مقررکردہ حدودمیں رہتے ہوئے فطری جائزخوشی ومسرت کے اظہارسے تسکین خاطر کا سامان ہوتا ہے،اس مسرت وخوشی میں اسباب خوشی سے محروم افرادکواپنے ساتھ شریک کرنے کی اسلام دعوت دیتاہے،دکھ سکھ میںدوسروں کا ساتھ دینے کمزوروں ،بے نوائوں اوردل شکستہ افراد کی دل جوئی کرنے اور ہرطرح دل آزاری سے بچنے کے عہدکی تجدیدہوتی ہے،سب سے اہم بات دیگر اورمواقع کی طرح خوشی ومسرت کے اسلامی تہوارمیں بھی انسانی رشتوں کی حرمت اور ان کے تقدس کابڑالحاظ ہوتاہے،خوشی ومسرت کے مواقع رشتوں کے اس احترام کومزیدپائیداربناتے ہیں،جبکہ مغربی تہذیب کے دلدادگان جوتہوارمناتے ہیں اس میںرشتوں کا تقدس دیدہ دلیری کے ساتھ پامال ہوتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ تہوارجوسچائی کا راستہ دکھائیں ،تقوی وپرہیزگاری کی دعوت دیں،انسانیت سے پیاراوراس کی نجات کی فکرکا داعیہ پیداکریں اس وقت دنیا کوان جیسی اعلی قدروں کی بڑی ضرورت ہے،دنیابھرمیں کئی ایک جشن اورتہوارمنائے جاتے ہیں ،اس حوالہ سے ان کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس معیارپر کماحقہ نہیں اترتے،انہیں میں سال نوکے جشن کا تہوار ہے ،ایک تواس تہوارکا تسلسل کرسمس ڈے سے جڑاہواہے جو۲۵؍ڈسمبرکوحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی پیدائش کا دن مانا جاتاہے پھر حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کونعوذباللہ۔ اللہ کا بیٹا ماننے کا شرکیہ عقیدہ بھی اس کرسمس ڈے کی بنیاد ہے۔اس لئے عیسائی دنیا اس کوبڑے اہتمام سے مناتی ہے،اس جشن کا سلسلہ ختم ڈسمبریکم جنوری کی پہلی شب تک جشن سال نو کے عنوان سے جاری رہتاہے۔باطل مذاہب کے پرستار، مشرکانہ عقائدو اعمال ،گمراہ کن افکار ونظریات کے طرفدار،ملحدودین بیزار،مغربی تہذیب کے علمبردارجوچاہے کریں وہ آزادہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آیا خیرامت کے منصب پرفائزامت مسلمہ ان جیسے تہواروںکا اہتمام کرسکتی ہے ؟یا ان میں شریک ہوسکتی ہے ؟ یا کرسمس ڈے یا جشن نومنانے والوں کو کوکم ازکم مبارک باددے سکتی ہے؟یہ سوالات اس وقت اس لئے اہم ہیں کہ امت مسلمہ کا وہ نادان طبقہ جوجہالت ولاعلمی کی زندگی بسرکررہاہے ، وہ طبقہ جو تعلیم یافتہ اور خوشحال ہے ،اسلامی احکام کی روح اوراس کے بنیادی مقاصدسے لاعلم ہے ،وہ آنکھ بندکرکے ہر خوشنما چیزکے پیچھے دوڑے چلاجاتاہے اوروہ طبقہ بھی جوجھوٹی شہرت ،سیاسی مفادات کوعزیزرکھتاہے، ایسے مشرکانہ تہوارمنانے ،اس میں شرکت کرنے یا منانے والوں کومبارک باددینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ان کواس گمراہی سے بچانے اورباطل کی ظلمتوں سے حق کے نورکی طرف لانے کا اہم ترین فریضہ امت کے ذمہ داروں پرعائدہے،ہونا تویہ چاہیے تھا کہ ساری امت ایمان واسلام کی بیش بہانعمت کی قدرکرتی،اوراس نعمت عظمی سے محروم انسانیت کی ہدایت کیلئے فکرمندرہتی،کفروشرک اوہام وخرافات کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں توحیدکادیا روشن کرتی ،یہ آیت پاک اس کے پیش نظررہتی: ’’اللہ سبحانہ ایمان والوں کا خودکارساز،مددگارودوست ہے،وہ انہیں ظلمتوں سے نورکی طرف لیجاتاہے اورکافروں کے اولیاء شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کرتاریکیوں کی طرف لیجاتے ہیں،یہ لوگ جہنمی ہیں جوہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے‘‘ (البقرہ:۲۵۷) ایمان ایسی بے بہادولت ہے جوایمان والوں کورفعت وبلندی پرپہنچاتی ہے۔’’بے شک جولوگ ایمان لائے اورنیک عمل کئے یہ سارے خلائق میں افضل وبہترہیں‘‘ (البینہ:۷)
المیہ یہ ہے کہ برائیوں وبے حیائی کے کاموںکوفروغ دینے کیلئے نت نئے خوشنما ہتھکنڈے استعمال کئے جارے ہیں ’’جشن سال نو‘‘کے عنوان سے کی جانے والی انسانی اخلاق واقدار ،تہذیب وشرافت سے عاری حیاء سوزبیہودگیوں کو’’New Year Celebration کے خوشنما عنوان سے سماج میں پھیلادیا گیا ہے ،جس سے معاشرہ برائیوں وبداخلاقیوں سے آلودہ ہوچکاہے،لیکن انسانیت وشرافت پریقین رکھنے والوں کواس کی خوشنمائی سے متاثرہونے کے بجائے اس کے اندرچھپی ہوئی اعتقادی وعملی خرابیوں سے واقف ہوکران سے بچنے اوردوسروں کوان خرابیوں سے واقف کرواکرگمراہیوں سے بچانے کی بڑی ضرورت ہے۔خاص طورپرامت مسلمہ کی نوخیزونوجوان نسل کا ہاتھ تھامنے اوران کوگمراہیوں کے دلدل میں دھنسے جانے سے بچانے کی دردمندانہ وفکرمندانہ کوشش وکاوش انسانیت کی فلاح وبہبود کا جذبہ رکھنے والوں پرفرض ہے یہ وقت کی ایسی آواز ہے جس پر کان دھرنے اورخاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ داعیان دین متین ودانشوران ملت کیلئے یہ ایک بہت بڑاچیالنج ہے ،انفرادی واجتماعی طورپراس پرغوروخوض کرنے اوراصلاح امت کی فکرکے ساتھ انسانیت کی ہدایت کیلئے منصوبندی کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایک سال کے گزرجانے سے عمرمیں کوئی اضافہ نہیں ہوتابلکہ زندگی کے قیمتی لمحات میں سے ایک سال کی کمی واقع ہوجاتی ہے ،اس اعتبارسے بھی یہ کوئی خوشی وشادمانی کا موقع نہیںبلکہ یہ سنجیدہ احتساب کا موقع ہے۔ گزراہواسال اپنے اندرکچھ تلخ تجربات ،غم والم کے حادثات ،عبرت ونصیحت سے بھرپور کچھ مشاہدات اورکچھ اچھے وخوشگوارلمحات سب اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے،نیکی وصالحیت ،تقوی وپرہیزگاری،معصیت ونافرمانی ،اسلامی احکام کی جانے انجانے خلاف ورزی،اعمال صالحہ سے غفلت نہ جانے کیا کیا خوبیاں،خرابیاں ہم سے سرزدہوگئی ہوں گی جونامہ اعمال میں محفوظ کرلی گئی ہیں ۔ نئے سال کے آغازپراگرمحاسبہ کی توفیق مل جائے جن کوتاہیوں اوربداعمالیوں کا صدورہوچکاان پرندامت کے آنسوبہالئے جائیں ، ایمان اورایمان کے تقاضوں ،تقوی وپرہیزگاری ،نیکی وپارسائی جیسے اعلی اوصاف اختیارکرنے کی گزرے ہوئے سال جوکچھ توفیق ملی اس میں مزیداضافہ کی کوشش کا جذبہ بیدارہوایسا محاسبہ انسان کوصلاح وفلاح کا راستہ دکھاتاہے ،تاہم یہ محاسبہ سال کے اختتام ہی پرنہیں بلکہ ہردن،ہرگھڑی ،ہرساعت ہوناچاہئے۔پتہ نہیں کونسی گھڑی آخری گھڑی ثابت ہو۔
ایمان عزیزہے توپھرامت مسلمہ کویہودونصاری ،کفارومشرکین کے اعتقادات ،ان کے کلچراوران کی تہذیب وثقافت سے سخت احترازکرنا چاہئے،سناجاتاہے کہ بعض مسلم اصحاب سال نوکی خوشی میں مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں اوراس عنوان سے مسرت بھرے پیامات کے کارڈس کی ارسال وترسیل ہوتی ہے ۔یہودونصاری کی ایسی گمراہانہ ایجادات واختراعات جواسلام کے اساسی اعتقادات واحکام سے متصادم ہوں امت مسلمہ کے لئے ہرگزقابل قبول نہیں ہوسکتیں۔اسلام نے مسلمانوں کوبہت سے امورمیں ان کی مشابہت سے بچنے کی تلقین کی ہے،اس بارے میں حدیث پاک میں سخت وعیدواردہے’’من تشبہ بقوم فہومنہم‘‘(مسنداحمد:۵۱۱۴)اللہ سبحانہ ہم کویہودونصاری ،کفارومشرکین ،مجوس وملحدین کی مشابہت اختیارکرنے سے بچائے اورنیکوکاربندوں کے ساتھ ہماراحشرفرمائے(آمین)