جشن ریختہ اُردو کا گنگا جمنی چہرہ۔ شکیل شمسی

آج سے پندرہ سال پہلے تک بہت سے لوگ اُردو کے مستقبل کو لے کر بہت فکر مند تھے‘ ان کو لگتا تھا کہ اُردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے سے اُرد و بچ جائے گی۔ کچھ لوگوں کولگتا تھا کہ صوبوں میں اُردو اکیڈمیاں کھل جائیں تو اُردو کو فروغ ملے گا بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اُردوکے فروغ کے لئے مرکزی حکومت کوئی انجمن بنادے تو اُردو کی بقاء کا سامانا ہوجائے گا اور کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ اُردواسی وقت بچے گی جب ہم سب اُردو کا اخبار خرید کر پڑھیں گے لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ہندوستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں اُردو کی بقا کے لئے ایسے لوگ آگے بڑھیں گے جو نہ توسرکاری ہوں گے اور ہی کسی مذہبی ادارے سے ان کا تعلق ہوگا۔

اُردو کو فروغ دینے کاکام ایسے لوگ کریں گے جن کے دل میں زبان کی محبت خدا نے ڈالی ہوگی۔ وہ غیرمسلم ہوں گے لیکن اُردوکی خدمت کرنے میں مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ اور اُردو کے یہ پروانے جانتے ہیں کہ شمع اُردو میں ایسی روشنی ہے جو پروانوں کو جلاتی نہیں ان کو نئی زندگی دیتی ہے۔ان پروانوں کو معلوم ہے کے اُردوفقط ایک زبان نہیں ایک ثقافت کا نام ہے۔ لیکن اسی تہذیب کی پیشانی پر اُردولکھا ہے جو اپنے نرم لہجے کی وجہ سے دلوں میں جگہ بنالیتی ہے۔اگر ہم اُردو کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کسی زمانے میں منشی نول کشور اس ک فروغ میں نظر ائیں گے کہیں غالب کی تحریوں میں ہرگوپال تفتہ جابجامسکراتے ہوئے ملیں گے ۔

کہیں پنڈت برج ناتھ چکبست او ررتن ناتھ سرشار اُردو کی راپوں میں پھول بھچاتے نظر آرہے ہوں گے ۔ لیکن وہ سب تو آزاد ی سے پہلے کی باتیں ہیں اس وقت تک تو ہندی او راُردو کے درمیان تعصب کی لکیریں نہیں کھینچی گئی تھیں۔وہ وقت دوسرا تھا ۔ اس وقت پنڈت نہرو نے اخبار شروع کیاتو اس کانام قومی آواز رکھا۔شائد کوئی کہے کہ آزادی سے پہلی بات کرنے کا کیافائدہ؟مگر آزادی کے بعد تورگھوپتی سہائے ‘ فراق ‘ کنور مہیندر سنگھ بیدی‘ جگن ناتھ آزاد ‘ نریش کمار ‘ سمپورن سنگھ گلزار‘ کرشنن بہاری نور‘ شین کاف نظام اورپنڈ ت گلزار زتشی جیسے نام بھی گلستان اُردو کو سیراب کرتے رہے اور آج یونہ جانے کتنے نوجوان لڑکے رنجیت چوہان کی شکل میں اُردوکی خدمت کررہے ہیں توان کو کیاکہیں گے؟

ہوسکتا ہے کہ کوئی صاحب یہ کہہ دیں کہ یہ سب توادیب ‘ شاعر‘ اور مصنف ہیں‘ ان کو زبان سے ذاتی لگاؤ تھا‘ مگر سونچئے ای ٹی وی کے مالک رامو جی راؤ نے اُردو چیانل کی شروعات کیوں کی؟کیوں امبانی نے آج اُردو کا چینل چلارہے ہیں؟ کیو ں زی سلام شروع کیاگیا؟کیوں سہارا کے مالکان نے اُردو صحافت کو مقامی اور علاقائی حدود سے نکال کر ایک قومی اخبار کی شکل دی؟ انہوں نے اُردو کا چیانل کیو ں شروع کیا؟جاگرن گروپ نے جب مڈڈے گروپ خریداتو انقلاب پر سب سے زیادہ توجہہ کیوں دی؟کیونکہ1938میں ممبئی سے شروع ہونے والا انقلاب 2011تک ممبئی کی حدود سے باہر نہیں نکل سکا؟

کیونکہ اُردو کی سب سے بڑی ویب سائیڈ ریختہ کے نام سے ملک کے ایک بڑے صنعت کار سنجیو صراف نے شروع کی؟۔ کیوں انہوں نے ہزاروں شاعروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انٹرنٹ کے صفحات پر محفوظ کردیا؟کیوں انہوں نے اُردو کی نادر ونایاب کتابوں کو لافانی بنانے کے لئے پی ڈی ایف فائیلیں بنانے کاکام شروع کیا‘

کیوں سنجیو صارف نے اُردو کی محفلوں کو پرانے شہر کی گلیوں سے نکال کر انڈیا کے گیٹ کے قریب واقع دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم کے احاطہ میں پہنچادیا؟۔ لیکن ان سوالوں سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آج جب اُردو کے خلاف زیر اگلنے والی لابی تمام حربے اُردو کو نیچا دکھانے کے لئے آزمارہی ہے ایسے میں اس جشن میں شریک ہونے والوں کی اکثریت غیر مسلموں پر کیسے مشتمل تھی؟۔

سب سے قابل فخر بات تویہ تھی کہ اتوار کی صبح انگریزی کے بڑے اخبار ٹائمز آف انڈیا نے جو سرخی لگائی اس میں ایک سوال تھا’’کیا اُردومررہی ہے‘‘اور پھر اسی میں دوسرا جملہ لکھاتھا کہ’’ نہیں بلندیوں کو چھو رہی ہے‘‘ ۔ اُردو کو بلندیوں پر لے جانے کاکا م وہ لوگ کررہے ہیں جن کا اُردو سے معاشی او رکاروباری رشتہ نہیں بلکہ روحانی او رقلبی رشتہ ہے۔