جرائم کی روک تھام میں حکومت اور عدلیہ کا رول

معاشرہ میں امن وآمان کے قیام کیلئے دوچیزوں کی ضرورت ہے،ایک ہے تعلیم وتربیت جس سے اپنے خالق ومالک کی معرفت اوراسکے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ مخلوق کے حقوق کے ادائیگی میں عدل وانصاف کوملحوظ رکھنے اورخالق ومخلوق دونوں کے حقوق کے اداکرنے میں مقام احسان کا پاس ولحاظ رکھنے کا عادلانہ مزاج بنتاہے،یعنی حقوق کے اداکرنے میں کسی کمی یا کوتاہی کا نہ صرف ارتکاب نہیں ہوتا بلکہ ان حقوق کوبکمال وتمام ایسے عمدہ اوربہتراندازمیں اداکرنے کا سلیقہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جس سے اس میں حسن ونکھار پیداہوتاہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔مقام احسان سے مرادیہ ہے کہ خالق ومخلوق کے حقوق اداکرتے ہوئے اس بات کا استحضاررہے کہ میرا اورساری کائنات کا خالق ومالک اورپالنہارمجھے دیکھ رہاہے،اس کیفیت کے ساتھ ادا ہونے والے حقوق واعمال ہی سے دنیا میں امن وآمان کا قیام ممکن ہے اوراُخروی کامیابی وکامرانی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے۔اس عظیم مقصدکی یاددہانی کیلئے اللہ سبحانہ نے حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ تک تقریباایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کرام ومرسلین عظام علیہم السلام کومبعوث فرمایا۔جن کے ذریعہ ایمانیات واعتقادات ،عبادات ،معاملات ،معاشرت واخلاق کی تعلیم کے ساتھ انسانوں کی عمدہ تربیت اوران کے نفوس کے تزکیہ کا اعلی انتظام فرمایا۔ چونکہ بعض شریرالنفس انسانی نفوس تعلیم وتربیت کے اثرات کوقبول نہیں کرتے ،ان کی خباثت نفسی کا جگہ جگہ اظہارہوتارہتاہے،یہ گروہ انسانی سماج میں سانپ ،بچھوکی طرح زہرناک اورخونخوار درندوں کی طرح خطرناک ثابت ہوتاہے جس سے سماج کا چین وسکون رخصت ہوجاتاہے۔سماج کو ان جیسے شریرالنفس انسانوں کے مظالم سے بچانے کیلئے دوسری چیز اسلام میں حدودوقصاص اورتعزیرات کا قانون نافذہے،غیر اسلامی اورسیکولرطرزکی حکومتوں میں جرم وسزا اورکرائم کا قانون مروج ہے۔انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت اوران پرآسمانی کتابوں اورصحائف کے نزول کا ایک اہم ترین مقصدیہ بھی ہے کہ دنیا میں ایمان وانصاف کے ذریعہ امن وآمان قائم ہو،ہرنیک وصالح فردایمان وانصاف کا پیکربنے ،سرکش وبدخوافرادکی تعلیم وتربیت فریضہ تبلیغ وہدایت کی دردمندانہ فکرسے ان کوامن پسندانہ بنانے کی کوشش کرے ورنہ غیر انسانی وغیر اخلاقی کردارکے حامل زہریلے عناصرکومنصفانہ قانون سیاست ،سزاوتعزیرکے ذریعہ عدل وانصاف پرقائم رہنے کا جبری پابندکیا جائے۔

سورئہ حدیدآیت ۲۵؍میں اللہ سبحانہ نے انبیاء ورسل علیہم السلام کونشانیاں دیکر ان پرکتب سماوی کے نازل فرمانے کے ذکرکے ساتھ ’’المیزان‘‘ کا ذکرفرمایاہے تاکہ لوگوں کو انصاف پر قائم رکھا جاسکے اور ’’الحدید‘‘ نازل کرنے کا ذکر فرمایا کہ اس میں بڑا رعب بھی ہے اورانسانوں کیلئے بڑے منافع بھی،اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وعظ ونصیحت ،تعلیم وتربیت کام نہ آسکے تو پھران کو شرارت سے بازرکھنے کیلئے ان کا علاج زنجیروہتھیارہے تاکہ اس کا ڈروخوف انصاف پرعمل پیرارہنے پران کو مجبوررکھ سکے۔ جرائم کی روک تھام میں اس کا بڑا اہم رول ہے،ظاہرہے عدل وانصاف کا قیام بھی پہلی چیز نظام تعلیم وتربیت ہی کاایک حصہ ہے ، اپنے اورپرائے کی تخصیص کے بغیرجوانصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کا تقاضہ کرتاہے۔ارشادباری ہے’’اے ایمان والو!عدل وانصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اوراللہ کی خوشنودی ورضا کیلئے سچی گواہی دینے والے بن جائو اگرچہ کہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے ،رشتہ دارعزیزوں کے خلاف ہو‘‘ (النسائ:۱۳۵)’’اے ایمان والوتم اللہ کی خوشنودی کیلئے حق پرقائم رہنے والے راستی اورانصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو،کسی قوم کی دشمنی تمہیں خلاف انصاف بات پر آمادہ نہ کرے، عدل کروجوتقوی سے قریب ترہے،اوراللہ سبحانہ سے ڈرتے رہو،یقین جان لوکہ اللہ سبحانہ تمہارے اعمال سے باخبرہے‘‘ (المائدہ :۸)ان دونوں آیات میں ’’کونوا قوامین ‘‘کے بعد پہلی آیت میں’’بالقسط شہدآء للّہ‘‘اوردوسری آیت میں ’’للّٰہ شہدآء بالقسط‘‘ارشادفرمایا گیا ہے، ان دونوں آیات میں الفاظ کے تقدم و تأخرکی ایک نفیس توجیہ بیان کی گئی ہے کہ انسان کو عدل وانصاف سے روکنے اورظلم وجورکا خوگربنانے میں دواسباب زیادہ مؤثرہوتے ہیں۔پہلا سبب اپنے نفس یا اپنے احباب واقرباء کی محبت میں بے جا تائید ونا رواحمایت ہے ،دوسراسبب کسی فردیا قوم کی عداوت ودشمنی اوران کے خلاف نفرت وحقارت کے جذبات ہیں۔سورہ نساء کی آیت میں اپنی اوراپنے احباب واقرباء کی ناحق تائیدسے اورسورئہ مائدہ کی آیت سے کسی فرد یا قوم کی دشمنی وعداوت سے روکاگیاہے(تفسیربحرمحیط:۴؍۷۹)کیونکہ عام طورپریہ دوچیزیں حق وانصاف کی راہ میں انسانوں کے پیروں کی زنجیربن جا تی ہیں۔ دنیا کی حکومتیں امن وآمان کے قیام کیلئے روزروز قوانین بدلتی رہتی ہیں ،اس مقصدکے لئے ادارے قائم کئے جاتے ہیں ،اربوں کھربوں روپیے منظورکئے جاتے ہیں ،لیکن پھر بھی امن وآمان کے قیام کے بجائے بگاڑوفساد،قتل وخونریزی،باہمی جنگ وجدال ،ظلم وجورروزافزوں ہے۔آخراس کا تدارک کیوں نہیں ہوپارہاہے اس پر غوروخوض کی شدیدضرورت ہے،ایمان والوں کیلئے توضروری ہے کہ وہ اپنے قلوب کونورایمان سے منور رکھیں، اسلامی اعمال واشغال ،پاکیزہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم وحوصلہ اپنے اندرپیداکریں،اپنے اورپرائے کی تخصیص کے بغیرعدل وانصاف ،انسان دوستی وخیرخواہی کواپنا وطیرہ بنائیں۔اوروہ انسان جونعمت ایمان سے محرم ہیں ان کوایمان کی شاہراہ تک پہنچانے کی مخلصانہ، مصلحانہ سعی وجہدجاری رکھیں تاکہ وہ بھی ایمان کی نعمت سے مشرف ہوکر امن وآمان کے قیام میں شریک کارہوسکیں اور اپنے خالق ومالک کی نعمتوں کے وہ بھی شکر گزار بندے بن سکیں۔ اگرایمان کی توفیق نہیں مل سکی ہے تو ملک کے نظام تعلیم میں کم ازکم ان کوایک اچھاانسان اورملک کا ایک اچھا شہری بننے کی تعلیم کا ضرور نظم ہونا چاہیئے تاکہ احترام انسانیت پرایقان ،انسانی اقدار کے ایک اچھے پیکراورعدل وانصاف کے خوگربن کرزندگی گزارنے کا سلیقہ مل سکے۔

اس تناظر میں حکومت کے موقف اورعدلیہ کے فیصلوں کی وجہ عوام یہ محسوس کر نے پر مجبورہو گئی ہے کہ ملک کے حالات اس وقت اقلیتوں کے خلاف اور فرقہ پرست طاقتوں کی بیجا تائید وحمایت میںہیں،مالیگائوں،مکہ مسجد،اجمیرشریف وغیرہ جیسے بم دھماکے ،گجرات کے مسلم کش فسادات،وٹولی واقعہ کے انسانیت سوزمظالم کے مجرمانہ مرتکبین، سہراب الدین شیخ انکائونٹروغیرہ جیسے مقدمات میں فرقہ پرست تنظیموں کے ارکان کی گرفتاری ،ان پرمقدمات بالآخر ان کوبری کردیا جانا وہ بھی ایسے ملزمین کی برأت جواپنے جرائم کے اقبالی ہیں۔نیزنروڈاپاٹیہ قتل عام مقدمہ میں مایا وتی کوڈنانی کے حق میں خصوصی عدالت کی سزا تجویزہونے کے باوجود ان کی برأت وغیرہ جیسے فیصلے حکومت اور قانون کے اداروں کے جانبدارانہ رویہ کے غماز ہیں۔آلیرانکائونٹروغیرہ جیسے اورکئی انسان دشمن واقعات توسرد خانہ میں پڑے ہوئے ہیں ان کی اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوسکی ہے۔الغرض ہندوتوادہشت گردوں کے ہاتھ بے خطاء اورمعصوم انسانی جانوں کے قتل وخون سے رنگین رہے، اسکے باوجو ان کی بے گناہی ثابت کرنے والے فیصلوں سے بظاہرانصاف کے بجائے عدل وانصاف کا خون ہوتا ہواصاف دکھائی دے رہاہے،ایسے تمام ملزمین جوفسادات پھیلانے، خونریزی وقتل وغارت گری کا بازارگرم کرکے خوف ودہشت کا ماحول بنا نے کے جرم میں برسوں سے قیدخانوں میں محبوس تھے اب حکومت وعدلیہ کی سرپرستی سے پروانہء آزادی حاصل کررہے ہیں، اگریہ بے قصورہیں تو پھرآخر عدل وانصاف کی شاہراہ پرچلنے والے اس جمہوری ملک کی مبنی برانسان دوست محبت بھری فضاء کوکس نے زہر آلودکیاہے اورکررہاہے؟وہ کون ہیں جوانسانی احترام کی بنیادوں کومتزلزل کرنے کے مرتکب ہیں؟حقیقی مجرمین کوگرفت میں لینے اوران کو کیفرکردارتک پہنچانے میں حکومت اورقانون کے اداروں کی کیا کوئی ذمہ داری آخرہے یا نہیں ؟جرائم سے پاک معاشرہ کی تشکیل آیا ایک جمہوری ملک کا نصب العین ہونا چاہیئے کہ نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کھوجنا حکومت وقانون کے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے ان کے ساتھ مزید ملک کے تمام جمہوریت پسند عدل وانصاف کے حامی شہری بھی اسکے ذمہ دار ہیں،ان کو چاہیئے کہ حکومت وقانون کے ادارے جن کا فرض منصبی امن وآمان کا قیام اورجرائم کی روک تھام ہے،اگروہ اپنے فرض منصبی کی ادائی میں چشم پوشی ،بیجا حمایت وطرفداری کی روش پر گامزن رہیں تو پہلے ان کوان کا سبق یاد دلانے کیلئے مذہب ملت کی تخصیص کے بغیرمتحدہ طورپر پرامن راہ اختیارکرنی چاہیے ،ورنہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہو نے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئیے تاکہ ملک کے سیکولرکردار کو داغدار ہونے سے بچایا جاسکے ورنہ پھر اس بات کا امکان ہے کہ ملک کی نیا جرائم کے منجھد ارمیں غرق ہوجائے ۔