جانشینی کا جھگڑا

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
جانشینی کا جھگڑا
کانگریس پارٹی میں آئندہ عام انتخابات کیلئے راہول گاندھی کو وزارت عظمی امیدوار نامزد کرنے کے مطالبہ میں شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ خاص طور پر ملک کی چار اہم ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس قائدین میں ایک طرح سے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ پارٹی قائدین چاہتے ہیں کہ کوئی کرشمہ ایسا ہوجائے کہ کانگریس کو تیسری معیاد کیلئے بھی اقتدار مل سکے ۔ پارٹی قائدین کی اکثریت اس خیال کی حامی ہے کہ راہول گاندھی کو اگر وزارت عظمی امیدوار نامزد کردیا جائے تو ملک کے رائے دہندوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے اور خود پارٹی کارکنوں اورکیڈر میں بھی جوش و خروش پیدا ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں ایک سے زائد موقعوں پر پارٹی کے سینئر قائدین اور وزرا تک نے بھی اس خیال کا اظہار کیا کہ راہول کو یہ ذمہ داری سونپ دی جانی چاہئے ۔ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ وہ راہول گاندھی کو آگے کرنے تیار ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ راہول گاندھی 2014 کے انتخابات کے بعد وزارت عظمی کیلئے کانگریس کا پسندیدہ انتخاب ہوسکتے ہیں۔ منموہن سنگھ نے تاہم راہول کیلئے 2014 انتخابات کے بعد راہ ہموار کرنے کا اشارہ دیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے کچھ داخلی حلقے چاہتے ہیں کہ منموہن سنگھ فوری وزارت عظمی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے یہ ذمہ داری راہول گاندھی کو سونپ دیں تاکہ چار پانچ ماہ کا جو وقت انتخابات کیلئے بچا ہے اس میں راہول گاندھی ملک کے عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور پھر ووٹ بھی حاصل کرسکیں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی روایات سے انحراف کرتے ہوئے 3 جنوری جمعہ کو ایک پریس کانفرنس طلب کی ہے اور یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اس پریس کانفرنس میں اپنے استعفے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر سے تاہم فوری طور پر یہ وضاحت کردی گئی کہ منموہن سنگھ استعفی کا اعلان نہیں کرینگے بلکہ وہ اپنی دوسری معیاد بھی مکمل کرینگے ۔ خود کانگریس پارٹی نے بھی میڈیا کی قیاس آرائیوں پر فوری حرکت میں آتے ہوئے وضاحت کردی کہ منموہن سنگھ وزارت عظمی کیلئے راہول گاندھی کی راہ ہموار کرنے مستعفی ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔ دفتر وزیر اعظم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں میڈیا میں جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں جس انداز سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں وہ بھی بالکل بے بنیاد اور حقائق سے بعید ہیں ۔ ان میں کسی طرح کی کوئی سچائی نہیں ہے ۔

آثار و قرائن سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ منموہن سنگھ 2014 کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم نہیں رہیں گے ۔ چاہے کانگریس کو اقتدار حاصل ہو یا نہ ہو ۔ اگر اقتدار کانگریس کے ہاتھ سے چلا جائے تو یہ سوال ہی ختم ہوجاتا ہے اور اگر کانگریس کو دوبارہ اقتدار مل جائے تو وزارت عظمی کیلئے انتخاب راہول ہونگے ۔ کانگریس پارٹی کس کو اس عہدہ کیلئے پیش کرتی ہے یہ اس کا داخلی معاملہ ہے لیکن سیاسی حکمت عملی کے تحت ماحول کو گرم کیا جارہا ہے اور نت نئی قیاس آرائیاں پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا جارہا ہے ۔ ایسے وقت میں جبکہ انتخابات کیلئے صرف چند ماہ کا وقت رہ گیا ہے ملک اور ملک کے عوام کو درپیش مسائل پر توجہ کرنے کی بجائے شخصیت پرستی کو ابھارا جا رہا ہے ۔ اقتدار کے دونوں ہی دعویدار اسی طرز عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے پہلے ہی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے مودی کی ہندوتوا شخصیت سے فائدہ حاصل کرنے انہیں اپنا وزارت عظمی امیدوار نامزد کردیا ہے ۔ اب کانگریس میں بھی یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ راہول گاندھی کو وزارت عظمی امیدوار بنادیا جائے ۔ کل ہی وزیر فینانس مسٹر پی چدمبرم نے بھی یہ کہا تھا کہ ان کے خیال میں پارٹی کو چاہئے کہ کسی موزوں شخصیت کو وزارت عظمی امیدوار کے طور پر پیش کرے ۔ یہ مطالبات اس شدت سے پیش کئے جا رہے ہیں کہ خود وزیر اعظم کو ایک موقع پر راہول کو آئندہ وزارت عظمی انتخاب قرار دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ پارٹی کے کارکنوں اور قائدین سبھی کی رائے ایک نظر آتی ہے ۔

اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے شکست کے بعد خود کانگریس پارٹی بالواسطہ طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ راہول گاندھی بتدریج عنان اقتدار سنبھال رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات سے قبل خاطی قرار دئے جانے والے سیاستدانوں کے تعلق سے آرڈیننس کی اجرائی کے مسئلہ پر راہول نے جس رد عمل کا اظہار کیا تھا اس کے نتیجہ میں حکومت نے آرڈیننس واپس لے لیا تھا ۔ انتخابات کے بعد مہاراشٹرا میں آدرش سوسائیٹی اسکام کی تحقیقاتی رپورٹ کے تعلق سے راہول گاندھی نے جس طرح سے حکومت مہاراشٹرا کے فیصلے کو مسترد کیا وہ بھی عوام کی نظروں میں پارٹی اور خود کی امیج کو بہتر بنانے کی کوشش ہے ۔ اس کوشش سے یہ تاثر ملتا ہے کہ راہول گاندھی حکومت کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں اور شائد اسی وجہ سے میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ منموہن سنگھ اپنی پریس کانفرنس میں مستعفی ہونے کا اعلان کردینگے ۔ منموہن سنگھ وزیر اعظم رہیں یا راہول گاندھی کو یہ عہدہ دیدیا جائے ضرورت اس بات کی ہے کہ شخصیت پرستی کے رجحان کو فروغ نہ ملنے پائے کیونکہ اس سے جمہوریت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور ملک و قوم کو درپیش سنگین مسائل کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔