جامعات میں ڈسپلن ضروری

آتشِ گل کو ہوا دیتی ہے بادسحری
میں پریشان ہوں کہ دامن کہیں ان کا نہ جلے
جامعات میں ڈسپلن ضروری
قومی دارالحکومت دہلی میں تعلیمی اداروں کو تصادم کی نذر کرنے اور طلباء کے مخالف گروپس کی زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ افسوسناک ہے۔ دہلی یونیورسٹی کی طالبہ گرمہر کور نے اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے خلاف اظہارخیال کے بعد خود کو اس مہم سے الگ کرلیا۔ دہلی کی اعلیٰ درسگاہوں میں دائیں بازو اور بائیں بازو نظریات کی لڑائی کو شدت سے بڑھاوا دینے کے واقعات کے درمیان حکومت کے ذمہ داروں کا نے غیرذمہ دار رویہ سچ بولنے والوں کو ہراساں کرنے کے دہانے پر آ کر ختم ہوتا ہے تو پھر آنے والے دنوں میں طلباء برادری کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ملک کو سنگین حالات کی جانب ڈھکیل دیا جائے گا۔ بی جے پی حکومت میں سچ کہو تو قوم دشمنی اور اس کی زیادتیوں کو برداشت کرتے ہوئے ہندوتوا گروپ کی تائید کی جائے تو قوم پرستی قرار دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں گرمہر کا بھی یہی کہنا ہیکہ کچھ ذمہ دار لوگ میری حب الوطنی پر شک کررہے ہیں۔ مجھے غدار کہا جارہا ہے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں کہ اصل میں حب الوطنی ہوتی کیا ہے۔ ایک شہید فوجی عہدیدار کی دختر کی حیثیت سے انہوں نے سوشیل میڈیا پر جو کچھ تبصرہ کیا اور اپنے خیالات و احساس کا اظہار کرتے ہوئے کچھ باتیں پوسٹ کی ہیں جس کے بعد ہی اے بی وی پی کے لوگوں نے دھمال مچانا شروع کردیا۔ دہلی یونیورسٹی کے راجمس کالج میں جو کچھ ہوا اس سے حکومت کے ذمہ داروں کا لاعلم ہونا ممکن نہیں اس حقیقت کے باوجود صرف ایک لڑکی کی سوشیل میڈیا پر کی گئی پوسٹ کو لیکر ہنگامہ برپا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دینا غیرضروری بدمست ٹولوں کو بڑھاوا دینا ہے۔ اے بی وی پی جیسی تنظیمیں تشدد کو ہوا دے رہی ہیں۔ جواہر لال یونیورسٹی کے کیمپس میں بھی طلباء گروپس کو نشانہ بنایا گیا۔ اس یونیورسٹی کے ایک طالب علم نجیب احمد کئی ہفتوں سے لاپتہ ہیں مگر حکومت اور انٹلیجنس ان ٹولیوں کا پتہ چلانے میں ناکام ہے۔ عمر خالد کو رامجس کالج میں ایک تقریر کیلئے مدعو کیا گیا تھا اس کی مخالفت میں احتجاج کرنے والے طلباء گروپ میں سے ایک طالب علم نے جو کچھ کہا اس کو طالبہ گرمہر کور نے اپنے سیل فون کے ذریعہ آڈیو ریکارڈنگ کرلی۔ اس رامجس کالج کے فزیکل سائنس کے سال اول کے طالب علم کی زبان سے واضح ہورہا تھا کہ اس نے عمرخالد کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے تھے’’اگر عمر خالد آجاتا تو زندہ واپس نہیں جاتا یہاں سے‘‘ ان ہی طلباء کے گروپس میں سے بعض نے یہ بھی کہا تھا کہ کس طرح انہوں نے کالج کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ طلباء اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسرس کو زدوکوب کیا ان پر سنگباری کی۔ یہ لوگ بڑی شان سے اپنی پرتشدد کارروائیوں کوبیان کررہے ہیں مگر ان کے خلاف پولیس کارروائی نہیں کی گئی لیکن طالبہ گرمہر کور نے اپنی ساتھی طالبات کو دی جانے والی دھمکیوں اور عصمت ریزی کرنے کی بھی دھمکی دی گئی تھی کا سوال اٹھایا تو اس کے خلاف دھمکیوں کا محاذ کھول دیا گیا۔ اس طرح برسرعام دی جانے والی دھمکیوں کا نوٹ نہ لینا نظم و نسق کی جانبدارانہ خاموشی ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے مختلف کالجوں کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہیکہ ہندوستان میں شہری سماج کے اندر غیرمعمولی طور پر ایک گروپ اپنا خوفناک چہرہ لے کر ساری تہذیب اور روایات کو تہس نہس کررہا ہے۔ تعلیمی ادارہ کو بدنام کرتے ہوئے خود کو قوم پرست قراردے رہا ہے۔ اے بی وی پی میں مجرمانہ ذہنیت کے حامل ارکان کی موجودگی اور انہیں حاصل سیاسی سرپرستی، مرد اور خواتین کے حوالے سے دیئے جانے والے فحش پیامات نے تعلیمی اداروں کی تعلیمی طرززندگی کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ طلباء خود اپنے ساتھی طلباء کو زدوکوب کرنے دہلی پروفیسرس کو گھسیٹ کر مارنے کیلئے اکساتے رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام اور خاطیوں کے خلاف سخت قدم اٹھانے میں پولیس کی ناکامی افسوسناک صدمہ خیز ہے۔ بے گناہ معصوم طلباء کے تحفظ کے بجائے نظم و نسق ہی پرتشدد طلباء کی طرفداری کرتا ہے تو اس سے ہمارے تعلیمی اداروں اور طلباء کے مستقبل پر کئی اہم سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک کثیرالوجود اور جمہوری معاشرہ میں دانشورانہ تنقیدوں کیلئے جگہ تو ہوتی ہے مگر درس و تدریس کے مراکز کو دشمنی پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف زہرافشانی کا گڑھ بنایا جائے تو حالات یکسر خراب ہوں گے اور اس خرابی کی ذمہ داری پولیس و نظم و نسق پر عائد ہوگی۔ طلباء میں پیدا کئے جانے والے نفرت کو ختم کرنے کیلئے جامعات میں امن کے ماحول کو فروغ دینے کیلئے سخت ترین ڈسپلن کا اطلاق ضروری ہے۔