تین طلاق کو دستوری کسوٹی پر پرکھا جائے

انتہائی اہم مسئلہ، دونوں فریقوں کے شدید جذبات : سپریم کورٹ
نئی دہلی۔29 جون (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے پرسنل لا کے مسئلہ کا جائزہ لینے سے اتفاق کرتے ہوئے آج کہا کہ مسلم برادری میں تین طلاق کے طریقہ کار کے مطابق طلاق دیا جانا ایک اہم مسئلہ ہے جس سے عوام کا ایک بڑا حصہ متاثر ہورہا ہے۔ اس (طریقہ کار) کو دستوری چوکٹھے کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہئے۔ عدالت عظمی نے کہا کہ ’’ہم یکلخت کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے کیوں کہ فریقوں کے دونوں جانب انتہائی شدید نظریات ہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اس مسئلہ سے نمٹنے کے معاملہ میں پہلے کے فیصلوں میں کہیں کوئی خامی یا غلطی رہی ہے اور اس مسئلہ کو کسی وسیع تر یا پانچ رکنی دستوری بنچ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس اے ایم کھانولکر پر مشتمل بنچ نے تین طلاق سے متعلق فیصلوں کا عدالتی تجزیہ کرنے کے امکان پر مقدمہ کے دونوں فریقوں کو تیار رہنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم براہ راست کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا دستوری بنچ کی طرف سے اس قانون پر مزید غور و خوص کی ضرورت ہے‘‘ بنچ نے اس کو ایک ایسا اہم مسئلہ قرار دیا جس سے عوام کا ایک بڑا حصہ متاثر ہورہا ہے اور اس پر فریقوں کے انتہائی شدید نظریات ہیں۔ بنچ نے کہا کہ ’’پرنسل لاء کو دستوری چوکٹھے کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہئے۔‘‘ بنچ نے اس مقدمہ کی آئندہ سماعت 6 ستمبر کو مقرر کرتے ہوئے کہا کہ قانونی ضابطوں کی تکمیل کے لئے کام کرنا باقی ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ اندرا جئے سنگھ نے بمبئی ہائی کورٹ کے ایک قدیم فیصلہ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ پرسنل لاء کو بنیادی حقوق سے مربوط نہیں کیا جاسکتا۔ بنچ نے کہا کہ تمام (فریقین) اپنے نظریات کا اظہار اور بحث میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہمیں تمام فریقین کے موقف کا علم ہوگا۔ ایک قانونی وکیل فرح فیض نے مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دوسروں کو اس مسئلہ پر تعلیمی ویژن مباحثوں یا دیگر پلیٹ فارمس سے اپنے نظریات کے اظہار سے باز رکھنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم بنچ نے کہا کہ ’’ہم ٹی وی شوز سے متاثر ہو نہیں سکتے۔ آپ(وکیل) بھی ٹی وی شوز میں حصہ لے سکتی ہیں۔ ہم آپ کی درخواست زیر التوا رکھتے ہیں اور اگر کسی مرحلہ پر صورتحال حد سے تجاوز کرتی نظر آتی ہے تو ہم مداخلت کریں گے۔‘‘ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل نے تین طلاق کے طریقہ کار کی مدافعت کی اور کہا کہ عدالتوں نے کہا ہے کہ پرسنل لاء سے متعلق معاملات کو دستوری کسوٹی پر پرکھا نہیں جاسکتا۔