تیسرے محاذ کا یوپی سے آغاز ؟

اُٹھ کہ پیدا ہوئی ظلمت اُفق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں
تیسرے محاذ کا یوپی سے آغاز ؟
ملک میں آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اب تیاریوں کا عملا آغاز کرچکی ہیں۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے ایک سال سے کچھ ہی زیادہ وقت رہ گیا ہے ۔ اس صورتحال میں سیاسی جماعتیں اب نئی صف بندیوں اور اتحاد و اختلاف کے عمل کا آغاز کرچکی ہیں۔ اب پہلے تو کرناٹک میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد راجستھان اور مدھیہ پردیش میں انتخابات ہونگے اور پھر لوک سبھا انتخابات کیلئے میدان سجے گا ۔ ملک میں سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کانگریس کی قیادت میں بی جے پی کے خلاف وسیع تر اتحاد کی باتیں ہو رہی تھیں۔ یہ باتیں اس وقت شروع ہوئیں جب کانگریس انتہائی کمزور ہوگئی تھی ۔ تاہم ایسے وقت میں جبکہ کانگریس کے مردہ جسم میں نئی جان پڑتی نظر آ رہی ہے اور وہ بی جے پی کے قلعوں میں ہی نقب لگانے کے موقف میں آنے لگی ہے تو تیسرے محاذ کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ جہاں ایک طرف چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ تیسرے محاذ کی وکالت میں سامنے آئے ہیں تو دوسری طرف اترپردیش میں عملا تیسرے محاذ کے قیام کا آغاز ہوتا ابھی نظر آ رہا ہے ۔ اترپردیش میں دو لوک سبھا حلقوں کیلئے ضمنی انتخاب ہو رہے ہیں۔ گورکھپور اور پھولپور حلقوں سے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اور ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ نے استعفی دے کر کونسل کی رکنیت حاصل کی ہے ۔ یہاں بی ایس پی نے سماجوادی پارٹی کے امیدواروں کی تائید کا اعلان کیا ہے ۔ بی ایس پی نے گورکھپور میں سماجوادی امیدوار کی تائید کا باضابطہ اعلان کردیا ہے اور پھولپور حلقہ کیلئے بھی ایسا ہی اعلان کیا جانے والا ہے ۔ یہ در اصل ایک تیسرے محاذ کی پہل ہوسکتی ہے یا پھر اس کو کانگریس زیر قیادت وسیع تر اتحاد میں بھی بدلا جاسکتا ہے ۔ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اترپردیش میں پہلے بھی اتحاد کرچکے ہیں اور مخلوط حکومت چلا چکے ہیں۔ بعد میں ان دونوں جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوگئی تھیں اور دونوں ہی نے ایک ایک مرتبہ تنہا حکومت بھی کی ہے ۔ اب جبکہ بی جے پی کی پیشرفت بلارکاوٹ جاری ہے تو ان دونوں جماعتوں نے ایک بار پھر اتحاد کی سمت عملا پہل کی ہے ۔ حالانکہ یہ باضابطہ اتحاد نہیں ہے لیکن اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔
سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی وہ جماعتیں ہیں جو عوام میں اچھا اثر و رسوخ رکھتی تھیں تاہم کچھ وجوہات کی بنا پر اور بی جے پی کی فرقہ پرستانہ سیاست اور موقع پرستوں کی جانب سے فرقہ پرستوں کو فائدہ پہونچانے کی حکمت عملی کی وجہ سے وہ شکست سے دو چار ہوئی ہیں۔ تاہم اب یہ جماعتیں ایک ہوکر اتحاد کی سمت پہل کرتی ہیں تو یہ ملک کی سیاست کیلئے خوش آئند ہوسکتا ہے تاہم اس پہلو کو بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس کو بھی اس میں شامل کیا جائے اور اس کے ساتھ ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دیا جائے ۔ بہار کی مثال سارے ملک کے سامنے ہے ۔ یہاں ایک عظیم اتحاد آر جے ڈی ۔ جے ڈی یو اور کاگنریس کا قائم ہوا تھا جس میں ان جماعتوں نے بی جے پی کو چاروں شانے چت کردیا تھا ۔ یہاں بی جے پی کے فائدہ کیلئے میدان میں اترنے والی موقع پرست جماعتیں بھی بے اثر ہو گئی تھیں ۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر پہل کی جاتی ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے نتائج مثبت ہوسکتے ہیں۔ خاص طو رپر تریپورہ میں سی پی ایم زیر قیادت اتحاد کی کراری شکست کے بعد ایسے اتحاد کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی ہے ۔ سی پی آئی مسلسل کانگریس زیر قیادت اتحاد کی وکالت کر رہی ہے لیکن سی پی ایم اس سے انکار کر رہی تھی ۔ سی پی ایم کو اب اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک وسیع تر قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فاشسٹ طاقتوں کی پیشرفت کو روکنے کی حکمت عملی کے ساتھ کام نہیں کیا جاتا اس وقت تک سیاسی جماعتوں کی بی جے پی سے مقابلہ میں سنجیدگی پر سوال برقرار رہے گا ۔
جہاں تک چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کے تیسرے محاذ کا سوال ہے اس میںکانگریس اور بی جے پی دونوں سے دوری برقرار رکھنے کی بات ہورہی ہے ۔ اترپردیش میں بھی سماجوادی اور بی ایس پی نے باہم اتحاد کی پہل کی ہے ۔ اس میں بھی کانگریس فی الحال شامل نہیں ہے تاہم سماجوادی پارٹی نے اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے باضابطہ اتحاد کیا تھا اور دونوں ہی جماعتوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ اتحاد 2019 میں بھی برقرار رہے گا ۔ اگر یہ اتحاد واقعتا آئندہ لوک سبھا انتخابات میں برقرار رہتا ہے اور اس میں بی ایس پی بھی شامل ہوجاتی ہے تو اپوزیشن کا وسیع تر محاذ کانگریس کی موجودگی سے وجود میں آسکتا ہے ۔ اس میں کئی دوسری جماعتیں شامل ہوسکتی ہیں۔ این سی پی ‘ نیشنل کانفرنس ‘ ترنمول کانگریس ‘ بی جے ڈی ‘ کمیونسٹ جماعتیں وغیرہ اگر اس کا حصہ بن جائیں تو آئندہ انتخابات میں بی جے پی سے مقابلہ زیادہ مشکل نہیں ہوگا ۔