تیزاب حملے کا شکار تین طلاق کی متاثرہ سکیورٹی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع

نئی دہلی۔ممنوعہ تین طلاق کے دوبارہ رجوع کرنے کے لئے نکاح ہلالہ کے مجبورکرنے کے عمل کو عدالت میں چیالنج کرنے والے تین طلاق کی متاثرہ پر اس کے سسرالی رشتہ داروں کی جانب سے مبینہ تیزاب حملے کے بعد سکیورٹی کے لئے عدالت سے رجوع ہونے والی ایک مسلم خاتون کے متعلق جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے یو پی حکومت سے ردعمل طلب کیاہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا اور جسٹس اے ایم کھانوالکر کے علاوہ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ پر مشتمل بنچ نے رانی عرف شبنم کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ درخواست کی ایک کاپی اترپردیش کے ایڈوکیٹ جنرل ایشوریہ بھاٹی کو پیش کریں او ر اس پر اگلے سنوائی کے لئے 17ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

اپدھیائے نے مبینہ طور پر یہ کہا ہے کہ شبنم کو اس کے دیوار نے بلند شہر میں تیزاب سے حملہ کیا ہے جہاں پر وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ مقیم ہے اور اس کی جانب سے ہوم منسٹری کو مکتوب لکھ کر اس کی زندگی کو درپیش خطرات کے پیش نظر سکیورٹی مانگی ہے کیونکہ اس کی جانب سے نکاح حلالہ کے عمل پر چیالنج کرتے ہوئے پیش کردہ درخواست کو واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالنے کے مقصد سے یہ حملہ کیاگیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ شبنم دہلی کی نیو فرینڈس کالونی کے ابولفضل انکلیو میں ساکن ہے ‘ جس کی شادی 2010میں مزمل سے ہوئی تھی اور اس شادی کے بعد انہیں تین لڑکیاں بھی پیدا ہوئیں۔

سال2015میں اس کے شوہر نے ایک او رعورت شبانہ سے دوسری شادی کرلی‘ اس کے بعد شبنم کو تین لڑکیوں کے ساتھ گھر کے باہر نکل دیا۔ مقامی لوگوں نے مداخلت کی جس کے بعد اسی اپنے تین بیٹوں کے ساتھ سسرال والوں کے گھر میں رہنے کا موقع دیا گیا۔

سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی دستوری بنچ نے پچھلے سال پانچ سے تین کی حمایت کے ساتھ بیک وقت تین طلاق کو غیردستوری قراردیاتھا۔

اس کے فوری بعد کئی مسلم خواتین اور این جی اوز نے طلاق کے بعد دوبارہ اپنے اسی شوہر سے رجوع ہونے کے لئے مسلم عورتوں کے لئے بنائے گئے نکاح حلالہ کے خلاف بہت ساری مسلم خواتین او راین جی اوز نے عدالت میں درخواستیں پیش کی۔شبنم نے الزام عائد کیاہے کہ اس نے شوہر نے دوبارہ نکاح کرنے کے لئے اسے اپنے دیوار سے نکاح حلالہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے مارچ میں مرکز سے نکاح حلالہ کے متعلق ردعمل بھی مانگا ہے۔