تیراندازی

ایک دفعہ شاہی دربار میں تیراندازی کا مقابلہ ہورہا تھا۔ بیچارے شیخ چلی نے تیر کمان کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا تھا لیکن بادشاہ کے حکم سے مجبور اس مقابلے میں شریک ہونا پڑا۔
جب نامی تیر انداز اپنا ہنر دکھا چکے تو شیخ چلی کی بار آئی۔ انہوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تیر کمان میں جوڑا اور بڑی کوشش کی کہ تیر نشانے پر جا بیٹھے لیکن نشانہ چوک گیا۔ لوگ نے ہنسنا شروع کردیا۔ شیخ چلی نے لوگوں پر نظر ڈالی بولے۔ ہمارے وزیرصاحب یوں تیر اندازی کرتے ہیں۔ دوسری دفعہ تیر جوڑا۔ اب کہ پھر نشانہ خالی گیا۔ شیخ صاحب نے کہا ۔ یہ ہمارے شہر کے کوتوال صاحب کی تیراندازی کا طریقہ ہے کہ نشانہ کہیں ہے اورتیر کہیں۔ تیسری دفعہ اتفاق سے تیر نشانے پر جا بیٹھا اور شیخ چلی بولے اور چلی یوں تیر چلایا کرتے ہیں۔ اس پر بڑی واہ واہ ہوئی اور بادشاہ کی طرف سے بڑا بھاری انعام ملا لیکن اس کے بعد شیخ چلی کبھی تیر اندازی کے مقابلے میں شریک نہیں ہوئے۔ شریک کیسے ہوتے۔ اچھی طرح جانتے تھے کہ روز روز تیر نشانے پر نہیں بیٹھتے۔