توسّل کی حقیقت … ایک تحقیقی جائزہ

مولانا ابو بکر محمد الہاشمی علیہ الرحمہ ، دائرۃ المعارف العثمانیہ

{قسط دوم و آخر}

رہا توسل صرف حیاۃ دنیا ہی میں لینا اور پردہ فرمانے کے بعد توسل کا ترک ماننا تو اس عقیدہ کی بھی کوئی اصل نہیں۔ پچھلے جمعہ کی قسط اول میں ذکر کیا گیا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سارے انبیاء عظام علیہم السلام کے توسل سے دعا مانگتے تھے نیز حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی آپ کا توسل لیا کرتے تھے ۔

حالانکہ کئی واقعات ایسے بھی ہمیںملتے ہیںکہ صحابہ کرام حضور نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی اکثر قبر مطہر پر حاضر ہوکر اپنے مصائب بیان کرکے مدد کے خواہاںہوتے ،چنانچہ ابن ابی شیبہ نے سند صحیح سے روایت کی ہے جس کو حافظ ابن حجرا العسقلانی نے بھی فتح الباری شرح بخاری میں نقل کیا ہے کہ صحابی رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بلال بن حارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جب شدید قحط سالی ہوگئی تھی تو سردار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبراطہر کی زیارت کی

اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اِستسق اﷲ لا متک فانھم قد ھلکوا یعنی یا رسول اللہ {صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم} اللہ تعالی سے اپنی امت کیلئے بارش مانگئے کیونکہ امت تو بالکل ہلاکت کے قریب آگئی فاتاہ رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فی المنام فقال :ائت عمر فاقرئہ السلام واخبرہ انھم یسقون یعنی حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے خواب میں آئے اور کہا: عمر کے پاس جاو ان سے میرا سلام کہنا اوراطلاع دینا کہ امت پر خوب بارانِ رحمت ہوگی ۔ اس حدیث کو امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں ابو صالح ذکوان کے طریق سے مختصر ذکر کیا ہے نیز امام ابن ابی خیثمہ رحمہ اﷲ نے اس کو بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجرا العسقلانی ’’الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میںکہتے ہیں۔ یہ حدیث بالکل واضح اور نص صریح کا حکم رکھتی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابہ آپ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی آپ کی قبر اطہر پر حاضر ہوتے اور آپ کے توسل سے دعا رب العزت تک پہنچایا کرتے اور ان پر کسی نے انکار نہیں کیا کیونکہ سب حقیقت حال سے واقف تھے ۔ یہ حدیث اور حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث جس میں سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو دعا الحاجتہ کی تعلیم دی ہے ۔

أللھم انی اسالک و اتو جہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی توجھت بک الی ربی فی حاجتیاس بات کو واضح کرتی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی آپ کو واضح کرتی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی آپ کے توسل درست ہے بلکہ اولی ہے نیز اس حدیث میں توسل بذات النبی کے علاوہ جاہ رسول کا توسل بھی ہے نیز آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کو جہری ندا سے پکارنے کا ثبوت بھی ہے ۔ ان احادیث کو امام طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اور ان کو صحیح قرار دیا ہے اور ان کی صحت کی امام ابوالحسن الہیثمی نے مجمع الزوائد میں تصدیق بھی ہے ۔

حضرت عثمان بن حنیف کی مذکورہ حدیث کو امام بخاری رحمہ اﷲ نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اﷲ نے اپنی جامع کی کتاب الدعوات کے اواخر میں اس کی روایت کی ہے اور امام نسائی نے ’’عمل الیوم و اللیلۃ ‘‘ میں اس کی روایت کی ہے اور ابو نعیم الحافظ نے معرفۃ الصحابتہ میں امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے ائمہ اسلام و حفاظ حدیث کی ایک بڑی جماعت نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے قدماء محدثین میں پندرہ بڑے ائمہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے متاخرین میں امام ترمذی رحمہ اﷲ ابن حبان رحمہ اﷲامام حاکم رحمہ اﷲ، امام طبرانی رحمہ اﷲ،حافظ ابو نعیم اصبہانی رحمہ اﷲ، امام بہیقی ،امام منذری رحمہ اﷲ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے نیز امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں متعدد طرق سے روایت کی ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس دعا کو دوسروں کو بھی سکھاتے اور اس طرح کرنے کی ہدایت دیتے تھے اور ان کی حاجتیں برابر پوری ہوا کرتی تھیں ۔

اس طرح کی روایات ابو نعیم اور منذری رحمہ اﷲ نے ترغیب اور بیہقی نے کئی طرق سے روایت کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نداء بالرسول واستغاثہ و توسل عہد صحابہ میں عام بات تھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد بھی ایسا کیاکرتے تھے ۔ محدث کبیر شیخ محمد عابد سندی رحمہ اﷲ نے توسل کے بارے میں ایک مستقل رسالہ تالیف فرمایا ہے اس کو تلاش کرنا چاہئے ،اس تحریر کے موقع پر ہمیں دستیاب نہ ہوسکا، علماء حنابلہ میں شیخ ابو الوفاء ابن عقیل نے بھی اپنی کتاب التذکرۃ میں مذہب حنبلی کے مطابق توسل بالنبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بحث کی ہے امام اہل سنت احمدبن حنبل رحمہ اﷲ کی کتاب المناسک میں ابوبکر المروزی رحمہ اﷲ کی روایت توسل الی اللہ بالنبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر موجود ہے ،خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد میںصحیح سند سے مذکورہ ہے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا توسل لیکر دعا مانگی تھی۔

امام الحمدثین الحافظ عبدالغنی المقدسی الحنبلی رحمہ اﷲ کے ایک بار بڑا دُمل نکل آیا تھا سارے اطباء علاج سے عاجز آگئے تھے چنانچہ امام احمد حنبل رحمہ اﷲ کی مزار اقدس پر حاضر ہوئے اور قبر کا مسح کر کے شفاء حاصل کی ،یہ روایت الامام الحافظ الْصیاء المقدسی رحمہ اﷲ کی تالیف الحکایات المنشورۃ میں مذکور ہے اس کا ایک نسخہ جو خود مولف کے ہاتھ کا لکھا ہے کتب خانہ ظاہر یہ شہر دمشق میںموجود ہے کیا یہ بڑے بڑے محدثین و فقہاء قبر پرست تھے ؟

الحافظ ابن حجر العسقلانی امیر المومنین فی الحدیث نے تہذیب التہذیب میں امام بخاری رحمہ اﷲ و امام مسلم رحمہ اﷲ و ائمہ اسلام کے استاذ حضرت امام ابو زکریا یحیی بن یحی بن بکیر الحنظلی النیسابوری رحمہ اﷲ کے حالات میں ذکر کیا کہ وہ اسلام کا نور اور اس کی ضیاء تھے لوگ ان کے شمائل و خصائل سیکھنے ان کی خدمت اقدس میں آیا کرتے تھے جب ان کا وصال ہوا تھا ابن حبان کی ثقات کی روایت کے مطابق اپنے جسم کے کپڑوں کے تعلق سے وصیت فرمائی کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کے پاس روانہ کردیئے جائیں۔ امام حاکم نیسا پوری رحمہ اﷲکی روایت میں ہے کہ حضر ابو علی نیسا پوری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایک بار میرے قلب پر شدید ترین غم کے بادل چھائے ہوئے تھے اور سخت مصیبت میںتھا خوب میں دیکھتاہوںکہ سید الاولین والاٰ خرین نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے حکم دیتے ہیںکہ یحی بن یحی نیسا پوری رحمہ اﷲکی قبرپر جاو اور وہاں استغفار کر کے دعا مانگو تمہاری ضرورت پوری ہوجائے گی یہ حکم سن کر میں صبح سویرے حضرت یحیی بن یحی رحمہ اﷲ کی مزار مبارک پر حاضر ہوا اور حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق دعا کی پس فوری میری ضرورت پوری ہوگئی اور سارے غم وھل گئے ۔

ابن حبان جیسے متشقف و متشدد ،محدث و مورخ رجال بھی بزرگان دین کی مزارات سے تبرک حاصل کر کے ان کا توسل بتارہے ہیں ۔ ان کی ثقات میںکئی جگہ اس کا ذکر ہے چنانچہ حضرت امام علی بن موسی رضا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حالات لکھنے کے بعد کہتے ہیں ان کی مزار مبارک سنباد میں طوقفان کے باہر واقع ہے ۔ میں بھی متعدد بار مزار اقدس کی زیارت سے مشرف ہوا ہوں جب میں شہر طوس میں تھا تو جب کبھی کوئی سخت مشکل پیش آتی یا پریشانی ہوتی تو فورا امام علی بن موسی رضا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مزار پر حاضری دیتا اور ان کے توسل سے دعا کرتا تو فورا قبول ہوجاتی اور ساری پریشانیاں دور ہوجاتی تھیں اس بات کا میں نے بذات خود بار بار تجربہ کیا ہے ۔

مولائے ذوالجلال اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت پر خاتمہ بالخیر فرمائے۔ امام ابو سعد سمعانی رحمہ اﷲ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الانساب میں جگہ جگہ بزرگوں کی مزارات کے تعلق سے تحریر کیا ہے کہ وقبرہ یزارو یتبرک بہ اسی طرح خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں متعدد جگہ استبراک و توسل کا ذکر کیا ہے کیا یہ سب ائمہ اسلام اور امت محمدیہ ازقرن اول تا ایندم قبرپرست اور مشرک قرار دیئے جائیں گے اور کیا رسول مکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبر پرستی کا حکم دیئے ۔نعوذ باﷲ من الشرور ۔