توبہ کرنے والا گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ اپنے الہامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک روز اللہ تعالی نے مجھ پر الہام فرمایا کہ ’’اے عبد القادر! تمہارے پاس پینے کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی رکھا ہوا ہے اور اس پانی کی تم کو ضرورت بھی نہیں، ایسے میں ایک پیاسا تمہارے پاس آتا ہے، اس کے حلق میں خشکی سے کانٹے پڑ گئے ہیں، وہ آکر تم سے پینے کے لئے پانی مانگتا ہے۔ اب اگر تم اس کو پانی نہیں دیتے تو ایسی صورت میں تم سخت بخیل ہوگے۔ اسی طرح میرا ایک بندہ میرے پاس آکر مجھ سے رحمت مانگتا ہے، وہ تشنہ رحمت ہے، مجھے رحمت کی ضرورت نہیں ہے، میری رحمت بہت وسیع ہے۔ میرے پاس رحمت کے نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں، تو بتاؤ میں کیسے انکار کردوں جب کہ میں ارحم الراحمین ہوں‘‘۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی اپنی رحمت سے کسی کو مایوس نہیں فرماتا، سب کو اپنی رحمت سے سرفراز فرماتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بندہ جب کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے۔ پھر ہر گناہ کے بعد یہ دھبہ بڑھتا جاتا ہے، تاآنکہ دل سیاہ ہو جاتا ہے‘‘۔ جب تک پورا دل سیاہ نہ ہو تو توفیق توبہ کی توقع رہتی ہے، لیکن جب پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو توفیق توبہ کی توقع ختم ہو جاتی ہے۔ لہذا دل سیاہ ہونے سے پہلے توبہ کرلی جائے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور خدا نخواستہ ہزار بار خدا نخواستہ ہم بے توبہ ہی مرجائیں، ہماری آخرت برباد ہو جائے اور ہمیشہ کی زندگی تباہ ہو جائے۔ اس لئے اگر گناہ سزد ہو جائے تو فوراً توبہ کرلینا چاہئے۔
نفس بڑا سرکش ہے اور بے غیرت بھی، اسے لاکھ دھتکاریئے، مگر یہ پیچھے پیچھے لگا رہے گا۔ یہ لالچی کتا ہے، یہ لذت کا خوگر ہے، اسے لذتوں کی چاٹ پڑی ہوئی ہے۔ اسے بس مزا چاہئے، خواہ وہ کتنا ہی معمولی اور وقتی کیوں نہ ہو۔ اسے عبادت کا چسکا لگادو، شروع شروع میں یہ گولی اسے بڑی کڑوی لگے گی، یہ انکار کرے گا، لیکن بالآخر جب اس کو عبادت کا چسکا لگ جائے گا تو پھر وہ گناہوں کی لذت سے محروم ہوکر آپ کا فرماں بردار ہو جائے گا۔ لیکن اس وقت بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ہزار مطیع ہونے کے باوجود یہ گناہوں کی طرف پھر بھی لوٹ سکتا ہے۔ ہمیشہ اس کی گردن پر سوار رہیں، ورنہ یہ آپ کی گردن پر سوار ہوجائے گا۔ یہ انسان سے صرف وہ گناہ کرواتا ہے، جس میں اس کو لذت ملے۔ مثلاً غیبت، شراب نوشی، زنا وغیرہ۔ شیطان لذت کے چکر میں نہیں پڑتا، اس کو صرف خدائی معصیت سے غرض ہے۔ وہ انسان سے مطلقاً گناہ کراتا ہے، خواہ اس میں لذت ہو یا نہ ہو۔ مثلاً چوری، ڈکیتی، فتنہ و فساد، ماں باپ کی نافرمانی وغیرہ۔ وہ انسان کو صرف خدا کا نافرمان بناکر اس سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ اس کو انسان سے جنم جنم کا بیر ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ انسان ہی کی وجہ سے وہ راندۂ درگاہ ہوا ہے۔
انسان شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کو بھی اپناتا ہے، جو باطن کی اصلاح کرتی ہے۔ یہ خاص خاص لوگوں کی راہ ہے، اس راہ پر چلنے کو سلوک اور چلنے والے کو سالک کہا جاتا ہے۔ سالک کے لئے توبہ بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ اس راہ کا پہلا قدم ہے۔ پہلا قدم اٹھتے ہی بندہ اللہ کا محبوب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’بے شک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ ہو جانے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ اس آیت کے دوسرے فقرے سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ توبہ کرنے والا گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ اسے پاکیزہ بنا دیا جاتا ہے۔ توبہ کے بعد گناہ کی آلودگی باقی نہیں رہتی۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’توبہ کرنے والا ایسا پاک ہو جاتا ہے، جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو‘‘ اور یہ پاکیزگی ہی تمام اچھے اور نیک اعمال کی شرط اول ہے۔ نماز اس وقت تک نہیں ہوتی، جب تک کہ آدمی وضو کرکے پاک نہ ہو جائے۔ دعا قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ پیٹ حرام غذا اور بدن حرام لباس سے پاک نہ ہو۔ صدقہ و خیرات اس وقت تک قبول نہیں ہوتے، جب تک کہ مال پاک نہ ہو۔
یوں تو توبہ بظاہر ایک چھوٹی سی چیز ہے، لیکن اس میں بڑی تاثیر اور قوت ہے۔ سنکھیا ذرا سی ہوتی ہے، لیکن برے بڑے قدآور پہلوان کو بھی ڈھیر کرسکتی ہے۔ دیا سلائی (ماچس) ایک چھوٹی سی تیلی ہے، لیکن بڑی بڑی عمارتوں کو جلاکر خاکستر کرسکتی ہے۔ بارود تھوڑی ہوتی ہے، لیکن بڑے بڑے پہاڑوں کو اُڑاکر راکھ کردیتی ہے۔ ایٹم ایک ذرۂ بے مقدار ہے، لیکن ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسے پہاڑوں کو آتش فشاں بناکر رکھ دیتا ہے۔ یقیناً توبہ ایک چھوٹا سا عمل ہے، لیکن زندگی بھر کے گناہوں کو نامۂ اعمال سے مٹا دیتا ہے۔ توبہ کے بعد بندہ اور خدا کے درمیان سے حجاب اٹھ جاتا ہے، بندہ کی براہ راست بارگاہ خداوندی تک رسائی ہو جاتی ہے۔ توبہ بندہ اور خدا کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہے، لہذا اس کو قصداً کبھی نہیں توڑنا چاہئے۔ اس کو قصداً توڑنا بڑے وبال کا سبب ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے توبہ ٹوٹ جائے تو پھر فوراً توبہ کرلینا چاہئے۔ گناہ سے باز آجائیں، اس پر اصرار نہ کریں۔ اسی طرح اگر توبہ سو مرتبہ بھی ٹوٹ جائے تو مایوس نہ ہوں، پھر بھی توبہ کئے جائیں، اللہ تعالی سارے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔
ایک روز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ عشاء کی نماز پڑھ کر گھر واپس ہو رہے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے پیچھے کچھ فاصلہ پر ایک عورت بھی آر ہی ہے۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور اندر سے دروازہ بند کرکے نوافل ادا کرنے کے لئے ابھی کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کسی نے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دروازہ کھول کر دیکھا تو وہی عورت دروازے پر کھڑی ہے۔ آپ نے پوچھا ’’اے عورت! تو کون ہے اور یہاں کیوں آئی ہے؟‘‘۔ عورت نے کہا ’’اے صحابی رسول! میں ایک گنہگار عورت ہوں، مجھ سے بہت گناہ سرزد ہوئے ہیں، میں آپ سے یہ پوچھنے آئی ہوں کہ کیا میری توبہ کی کوئی صورت ہے؟ کیا میرے گناہ معاف ہو سکتے ہیں؟‘‘۔ حضرت ابوہریرہ نے عورت کی روداد سن کر فرمایا ’’تو بڑی گنہگار ہے، تیرے گناہ معاف ہونے کی مجھے کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔ یہ کہہ کر آپ نے دروازہ بند کرلیا اور وہ عورت مایوس لوٹ گئی۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ صبح جب میں نے اس عورت کا واقعہ اور اپنا جواب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا تو آپﷺ نے فرمایا ’’ابوہریرہ! تم نے بڑا غلط جواب دیا۔ اگر بندہ کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں تب بھی اللہ تعالی توبہ کی وجہ سے سارے گناہ معاف فرمادیتا ہے‘‘۔ (اقتباس)