’’ توبہ و استغفار کے فوائد و ثمرات‘‘

ابو زاہد سید وحید اللہ حسینی قادری
توبہ و استغفار کی فضیلت ،اہمیت اورافادیت سعادت انسانی کا مدار ہے۔ سفلی جذبات ،دنیوی خواہشات اور غلط رجحانات کا شکار انسانی نفس ہمیشہ قبائح کی طرف مائل اور معصیت کی طرف راغب رہتا ہے۔ اگر اس کی بروقت اصلاح نہ کی جائے تو انسان کج فطرتی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ نفس انسان کو برائیوں کا کثرت سے حکم دینے لگتا ہے جس کی وجہ سے انسان مخالف دین سرگرمیوں کا ارتکاب کرنے لگتا ہے جس سے بچنا انسان کے لئے از حد دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی لیے گناہوں کے ترک کرنے کو افضل ترین ہجرت کہا گیاہے۔ گناہ اور خطا کرنا انسان کا جز لاینفک ہے البتہ انسانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی خطائوں کا اعتراف کرے پھر اس پر حضورِ قلب کے ساتھ ندامت وپشیمانی کے آنسو بہائے اور پختہ ارادہ کے ساتھ گناہوں سے علاحدہ ہونے کا عزم مصصم کرلے کہ میں بھی گزشتہ گناہوں کا دوبارہ ارتکاب نہیں کروں گا۔ انبیا و مرسلین کے نورانی قافلے کی آمد کا مقصد اصلی اور ان ذوات قدسیہ کی دعوتی، روحانی اور اصلاحی سرگرمیوں کا مرکز و محور نفوس انسانی کا تزکیہ ہے۔ اور تزکیہ نفس میں توبہ و استغفار کرنا بہت ہی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے چونکہ اصلاحِ مفاسد اور تزکیہ نفس کی راہ اسی وقت ہموار ہوتی جب انسان کے باطن سے گناہوں کے اثرات بھی زائل ہوجائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بندہ توبہ و استغفار کثرت سے کرے ۔ جب بندہ عاصی اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالی نہ صرف گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے بلکہ گناہوں کے اثرات کو بھی زائل کردیتا ہے ۔ چنانچہ علامہ آلوسی ’’واعف عنا‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ہمارے گناہوں کے آثارو نشانات اور گواہوں کو مٹا دے (روح المعانی)۔
نصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ جب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو چار چیزیں یعنی (۱) زمین (۲) انسان کے جسمانی اعضا (۳) کراماً کاتبین اور (۴) نامۂ اعمال بندہ کی اس نافرمانی پر اس کے خلاف گواہ مقرر کردیئے جاتے ہیں ۔ لیکن جب بندہ صدقِ دل اور حسنِ نیت کے ساتھ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالی ان گواہوں کے قوت حافظہ سے بندہ کے اس گناہ کو بھی مٹادیتا ہے تاکہ توبہ کرنے والا کسی اور کے سامنے پشیمان نہ ہو۔ حدیث شریف میں اسی طرح اشارہ کیاگیا ہے رحمت عالم ﷺ فرماتے ہیں گناہوں سے توبہ کرنے والا شخص ایسا ہے جس نے اصلاً کوئی گناہ نہ کیا ہو۔

اللہ تعالی نے اپنے گناہگار بندوں کو بخشنے کے لیے اپنے تین اوصاف جلیلہ کا ذکر بیان فرمایا ہے یعنی (۱) غافر (۲) غفور اور (۳) غفار۔ علمائے کرام اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیںکہ جب بندہ دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی جرم یا خطا کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا یعنی ظالم بن جاتا ہے اور پھر اپنے ظلم کو قبیح جانتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالی اس بندے کو فرماتا ہے میں غافر ہوں اور کوئی بندہ عادتاً نفسانی و شیطانی خباثتوں کا اسیر بن کر ظلوم کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اس مقام پر وہ صدقِ دل اور حسنِ نیت کے ساتھ احساسِ ندامت کا اظہار کرتا ہے تو دستِ رحمت الہی بار دیگر اس کی طرف دراز ہوتا ہے اور اللہ تعالی فرماتا ہے اے میرے بندے میں غفور ہوں تو میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اور وہ بندہ جو فطرتاً گناہوں، بدکرداریوں اور گناہ و عصیاں کے دلدل میں دھنس کرپہلے دونوں حدوں (یعنی ظالم و مظلوم) کو پار کرکے ظلم کی حد تک پہنچ جاتا ہے اگر اسے بھی گزشتہ برے اعمال کی وجہ سے گناہگاری کا احساس ہوجائے اور وہ بھی اگر تہہ دل و جان سے اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو تو اللہ تعالی ایسے بندے کی بھی توبہ و استغفار کو قبول کرتا ہے اور فرماتا ہے اے میرے بندے تو میری رحمت سے ناامید نہ ہوناچونکہ میں غفار بھی ہوںمیری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔
توبہ کا دروازہ اور خالق کونین کی رحمت کی آغوش سب کے لیے کھلی ہے۔ رحمت الہی کے دریائے بیکراں کا اندازہ کیجیے کہ ارشاد ہوتا ہے ’’ آپ فرمایے اے میرے بندو جنہوں نے زیادتیاں کی ہیں اپنے نفسوں پر، مایوس نہ ہوجائو اللہ کی رحمت سے یقینا اللہ تعالی بخش دیتا ہے سارے گناہوں کو بلا شبہ وہی بہت بخشنے والا ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے‘‘ (سورۃ الزمر آیت ۵۳)
توبہ و استغفار سے نہ صرف گناہ بخش دیئے جاتے ہیں بلکہ خالق کونین اپنی مہربانی ، فضل و احسان سے تائب کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کردیتا ہے ارشاد ہوتا ہے ’’مگر وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا اللہ تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے‘‘ (سورۃ الفرقان) اگر بندہ عاصی خلوصِ نیت اور خوف خدا کے ساتھ توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کے حق میں جنت متحقق ہوجاتی ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔