تم چاہو تو ہوجائے ابھی کوہِ محن پھول

شجاعت کے لغوی معنی بہادری دلیری جواں مردی کے ہیں ۔ ایسی بہادری و جانثاری جو عقل اور صحیح رائے کے تابع ہو دل کے اپنے عزم پر پختہ رہنے کو شجاعت کہتے ہیں ۔ اور یہی ہرکمال حاصل کرنے کااصل ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعہ انسان بلند مقام تک کامیابی کے ساتھ پہنچ سکتا ہے اور دل کا پختہ اور مضبوط ہونا تب ہی ممکن ہے جب انسان کا مزاج اور اس کی عقل درست ہو اور اس کی طبیعت میں اعتدال ہو ۔ چنانچہ اس طاقت کے مضمرات کے بارے میں قرآن مجید میں بتایا گیا ہے : ’’دشمنوں کے مقابلہ کیلئے اپنے اندر جس قدر قوت پیدا کرسکتے ہو پیدا کرو کیونکہ اگر تم نحیف و کمزور ہوگئے ہو تو دشمن پر کس طرح غلبہ پاسکوگے ‘‘ ۔ ( سورۂ انفال)
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا طاقتور مسلمان زیادہ بہتر اور اﷲ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے کمزور مسلمان سے اور ہر ایک میں بھلائی ہے ۔ اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں ( دینی) نفع پہنچائے اور اﷲ سے مدد مانگو اور کم ہمتی نہ دکھاؤ ( مسلم ، ابن ماجہ )
قاضی عیاض کی کتاب الشفاء میں شجاعت کی تعریف یوں کی ہے قوت غضبی کی زیادتی اور اس کے تابع عقل ہونے کو شجاعت کا نام دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ علامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النبی ﷺ میں لکھا ہے یہ وصف انسانیت کا اعلیٰ جوہر ہے اور اخلاق کا سنگ بنیاد عزم و استقلال ، تمام باتیں شجاعت ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس طرح اعلیٰ کردار انسان کیلئے شجاعت کا وصف بھی ضروری ہے اس ضمن میں اﷲ تعالیٰ انبیاء سابقین کے مکارم اخلاق و محاسن افعال بیان فرماتا ہے ۔ اس میں ان کو ایسی تمام اعلیٰ چیزوں کا حامل بتاتا ہیکہ وہ مکمل نمونہ ہوا کرتا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی بات پر ایک قبطی کو زور سے مکا مارا کہ وہ اس کی تاب نہ لاسکا اور وہیں مرگیا۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوت بازو اور مضبوط القوی ہونے کا ثبوت تھا نہ کہ پیغمبرانہ وصف و معجزہ ۔
پھر افضل البشر تاج الانبیاء محمد مجتبیٰ ﷺ کی جسمانی طاقت و قوت اور شجاعت مہتمم الشان ہے ۔ ابتدائے الاسلام میں حضور نبی کریم ﷺ کا عرب کے مشہور پہوان سے مقابلہ ہوا جس کا نام رکانہ تھا ۔ ایک مرتبہ ایک ملاقات مکہ کے ایک وادی میں حضور اکرم ﷺ سے ہوئی ۔ حضور اکرم ﷺ نے رکانہ سے فرمایا اے رکانہ کیا تو اﷲ سے نہیں ڈرتا میں جس بات کی دعوت دیتا ہوں اس کو قبول نہیں کرتا ۔ اس نے جواب دیا ، ذرا مجھ سے زور آزمائی کرکے دیکھو اگر تم غالب آگئے تو جانوں گا کہ تمہارے دعویٰ میں کتنی صداقت ہے ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم اس کی شہ زوری سے مطلق خائف نہ ہوئے اور اس سے کشتی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے رکانہ کو چاروں شانے چت کردیا ، اس پر اس نے پھر سے کہا : اے محمد ﷺ ایک دفعہ پھر ، حضور علیہ السلام نے پھر اسے پچھاڑ دیا ۔ بعض روایات میں تین بار آیا ہے ۔ رکانہ نے فتح مکہ سے کچھ پہلے اسلام قبول کیا۔
ایک اور پہلوان ابوالاشد نے ایک دفعہ رسول اﷲ ﷺ سے کہا اگر آپ مجھے پچھاڑ دیں تو میں آپ پر ایمان لاؤں گا ۔ حضور اکرم ﷺ نے آناً فاناً میں زیرکردیا۔ رسول اکرم ﷺ کی جسمانی قوت و طاقت اور شجاعت کا اس امر سے بھی اندازہہوتا ہیکہ آپ ﷺ لڑائیوں کے موقعہ پر اکثر دودو زرہیں پہنا کرتے تھے ۔ چنانچہ معرکہ احد میں آپ ﷺ کے جسم اطہر پر دو زرہیں تھیں۔
جنگ حنین میں براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے کسی نے پوچھا کیا تم سب لوگ حضور علیہ السلام کو چھوڑکر جنگ حنین میں بھاگ گئے تھے ۔ انھوں نے فرمایا کہ نہیں حضور علیہ السلام نے پشت نہیں پھیری بلکہ فوج میں سے بعض نے قبیلہ ہوازن کے سامنے تیروں کی وجہ سے منہ پھیرلیا تھا (حضور علیہ السلام کے ساتھ اکابر صحابہ کا ہونا ثابت ہے) اس وقت حضور علیہ السلام فرمارہے تھے : ’’میں بلاشک و شبہ نبی ہو اور عبدالمطلب کی اولاد ہوں ‘‘ ۔
غزوۂ خندق کا عظیم الشان واقعہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شجاعت ، جسمانی طاقت کی ایک دل آویز تفسیر ہے ۔ اس معرکہ میں کوئی دس ہزار کفار کالشکرجرار مدینہ پر حملہ آور ہوا ۔ سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کے مشورے سے خندق کھودی گئی اچانک ایک جگہ ایک سخت چٹان درمیان میں حائل ہوگئی ۔ صحابہ کرام نے بھی کوشش کی لیکن وہ چٹان نہ ٹوٹی اور حضور نبی کریم ﷺ اس مقام پر تشریف لائے اور حضور اکرم ﷺ نے کدال لئے آگے بڑھ آئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ نے بھرپور طاقت سے اس چٹان پر ایک ضرب لگائی دیکھتے ہی دیکھتے چٹان میں ایک شگاف پیدا ہوگیا اور ساتھ ہی ایک روشنی نکلی پھر دوسری ضرب لگائی جس مںے پیدا شدہ شگاف اور وسیع ہوگیا ، تیسری بار آپ کی ایسی ہی ضرب نے چٹان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ یہ حضور اکرم ﷺ کی بے مثال طاقت و شہ زوری کا شاہکار ہے ۔