تمہارا جذبہ قابل قدر ہے

وہ چاروں مسلسل سوچ رہے تھے کہ چھٹیاں کیسے گزاری جائیں۔ یہ تھے چاروں بہن بھائی خرم، فہد، ارم اور رعنا۔ خرم جو سب سے بڑا تھا، ایک دم زور سے اُچھلا ارے کیوں نہ ہم ان چھٹیوں میں ایک جاسوسی کا ادارہ کھولیں۔ ارم جو بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھی، بُرا سا منہ بناکر بولی ’’تمہارے اوپر تو ہر وقت جاسوسی کا بھوت سوار رہتا ہے، اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتے ہو؟‘‘ چاروں اپنی اپنی تجاویز دے رہے تھے کہ یہ چھٹیاں کیسے گزاریں؟ کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ، کسی کو بھی دوسرے کی بات پسند نہیں آتی تھی۔ رعنا بولی : ’’اس دفعہ ایسے پُرفضا مقامات پر جانا چاہئے جہاں خوبصورت نظارے ہوں، وہاں ہم سب مصوری کریں گے‘‘۔ فہد بولا ’’نہیں کوئی ایڈونچر ہونا چاہئے‘‘۔ ارم بولی ’’خدا کے واسطے چپ ہوجاؤ، تم نے تو اپنی ساری زندگی کو ایڈونچر بنالیا ہے ہمیں اس دفعہ غریبوں کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔ ہمیں جیب خرچ ملتا ہے، اس سے یتیموں کی مالی امداد کرنی چاہئے۔ ارم یہ کہہ رہی تھی کہ اتنے میں علی اور وقار کمرے میں داخل ہوگئے۔ یہ دونوں ارم کی خالہ کے بیٹے تھے اور آج کل ان کے گھر آئے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے جو آتے ہی یہ سنا کہ چھٹیاں گزارنے کا پروگرام بن رہا ہے تو فوراً ہی علی بولا : میں نے ارم کی بات سنی ہے اور مجھے تجویز بہت پسند آئی ہے کہ ہمیں غریبوں کی مدد کرنی چاہئے۔ وقار جو فہد کا ہم مزاج تھا، بولا : ’’نہیں ایک دم بیکار خیال ہے‘‘۔ فہد اور وقار دونوں بُرے بُرے منہ بناتے ہوئے باہر چلے گئے… ارم کی تجویز سب کو پسند آئی۔ خرم، علی اور رعنا یہ سب اس نیک کام کو کرنے کے لئے تیار تھے۔ خرم اور علی نے اپنی سائیکلیں نکالیں۔ ارم اور رعنا دونوں کو ساتھ لیا۔ رعنا نے کہا ’’لیکن اب ہمیں جانا کدھر ہے؟‘‘ ارم بولی ! بھئی راستے میں ہمیں کوئی ایسا شخص جسے مدد کی ضرورت ہو، ضرور ملے گا‘‘

… اور واقعی ایک جگہ انھیں ایک شخص بیٹھا ہوا نظر آیا جو بیچارہ نابینا اور ضعیف تھا۔ یہ چاروں اس کے پاس گئے اور بولے ’’بابا جی آئیں، ہم آپ کو سڑک پار کروادیں‘‘۔ بابا جی بولے ’’نہیں بیٹا میں ادھر ہی ٹھیک ہوں‘‘۔ انھوں نے بہت کوشش کی کہ بابا جی اُٹھ جائیں لیکن وہ نہیں اُٹھے۔ خرم نے تنگ آکر بابا جی کو کہاکہ آپ کیوں نہیں اُٹھتے؟‘‘ آخر ہمیں غریبوں کی مدد کرنی ہے اور آپ اتنی دیر کے بعد ہمیں ملے ہیں اور اُٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے‘‘۔ بابا جی کو غصہ آگیا اور اُنھوں نے چلاّنا شروع کردیا۔ لوگ اس کی آواز سن کر پاس آنا شروع ہوگئے۔ یہ چاروں جلدی سے وہاں سے بھاگے‘‘۔ تینوں ارم کو کوس رہے تھے کہ تمہاری تجویز کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ وہ بیچارے اتنی دیر سے بھوکے تھے اور ان کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ گھر پہنچے تو وقار اور فہد مزے سے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور جب اُنھوں نے ان چاروں کی اُتری ہوئی شکلیں دیکھیں تو بولے ’’کر آئے غریبوں کی مدد‘‘۔ خرم نے سارا واقعہ نہیں سنایا۔ وقار اور فہد کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہوگیا تھا۔ اتنے میں ان کی باجی کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں کہ بچو! مجھے سارے قصے کا علم ہے تمہارا جذبہ قابل قدر ہے لیکن تمہارا طریقہ غلط ہے۔ اگر تم کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہو تو یہ گھر بیٹھ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ تم سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہو۔