تلنگانہ ۔ آندھراملازمین کا مسئلہ

اب تلنگانہ ریاست کے وجودمیںآنے کیلئے ایک دن کا وقت رہ گیاہے ۔ کل رات سے تلنگانہ ریاست کے قیام کا جشن شروع ہو جائیگا۔ریاست کی تشکیل کا جشن شروع ہونے سے پہلے ہی تلنگانہ اور آندھراکے ملازمین کی تقسیم کے مسئلہ پر کشیدگی پیدا ہونے لگی ہے ۔ آخری وقت میں بھی تلنگانہ کے ملازمین کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ جاری رکھاگیا ہے ۔ تلنگانہ میں تقریبا تمام سیاسی جماعتوںاور تنظیموں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہاہے کہ تلنگانہ کے ملازمین کوصرف تلنگانہ میں کام کرنے کا موقع دیا جائے اور آندھرائی ملازمین کو ان کے مقامات کو منتقل کرتے ہوئے یہاںدوسروںکیلئے مواقع فراہم کئے جائیں۔ ان مطالبات کے دوران بعض مفاد پرستحکام اور عہدیداروںکی جانب سے ملازمین کی تقسیم میںناانصافیاںکی جارہی ہیں۔ آندھرائی ملازمین کو تلنگانہ میں رکھنے کا موقع فراہم کرنے تلنگانہ کے ملازمین کو آندھرا میںتعینات کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے ۔ تلنگانہ کے ملازمین کو آندھرا کیلئے روانہ کردیا جائے تووہ وہاںغیر مقامی کہلائیںگے

اوران کے ساتھ وہاں ناانصافی کا سلسلہ جاری رکھاجائیگا ۔ اسکے ساتھ ہی آندھرا سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو تلنگانہ میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا ۔ اس دوران یہ ملازمین اپنے رہائشی اور علاقائی سرٹیفیکٹ فرضی بنیادوںپر تیارکرتے ہوئے مستقل طور پر تلنگانہ میںقیام کرسکتے ہیں۔ بعد میںتلنگانہ سے تعلق رکھنے والوںکوآندھراسے واپس بھی کردیا جاسکتا ہے ۔ اگر واپس نہ بھی کیا جائے تو انہیںان حقوق اور مراعات سیاورترقیوںسے محروم رکھتے ہوئے نا انصافی کاشکار کیا جاسکتا ہے ۔ یہ منصوبہ قابل مذمت ہے۔ ایک ایسے وقت میںجبکہ دو ریاستیںوجودمیںآنے والی ہیں۔ آندھرا پردیش کو تقسیم کرتے ہوئے تلنگانہ کا قیام عمل میںآچکا ہے اس طرح کی سازشیںکرتے ہوئے ملازمین کو انصاف سے محروم کرنا اورسازشیںکرناانتہائی نامناسب عمل ہے ۔ اس طرح کی کوششوںکے نتیجہ میںملازمین کے مابین اختلافات دشمنی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ باہمی تعلقات کو متاثر کرنے کا اثر دونوںریاستوں کے آپسی تعلقات پر بھی مرتب ہوسکتا ہے ۔

ملازمین کی تقسیم کے مسئلہ پر پہلے ہی سیاسی قائدین اور جماعتوںکے مابین بیان بازیاں شروع ہوچکی ۔تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے سربراہ اور تلنگانہ کے ہونیوالے پہلے چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے واضح کردیاہیکہ آندھرائی ملازمین کوتلنگانہ میں کام کرنے کی اجازت نہیںدی جائے گی ۔چندر شیکھر راؤ کے بیان پر آندھرا کے متوقع چیف منسٹر و صدرتلگودیشم مسٹر این چندرابابو نائیڈو برہم ہوگئے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ چندر شیکھر راؤ کواس طرح کی بیان بازیوںسے گریز کرنا چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی قائدین اوردو ریاستوں کے متوقع چیف منسٹروںکو لفظی تکرارسے بچتے ہوئے باہمی سطح پر خوشگوار اور بہتر تعلقات کے قیام کی کوشش کرنی چاہئے۔ دونوںریاستیں ایک دوسری کی اولین پڑوسی ہونگی ۔ دونوںریاستوںکو مزیددس برس تک ایک دوسرے سے تعاون کرنا پڑے گا ۔ ایسی صورت میںدو جماعتوںکے سربراہان اور متوقع چیف منسٹروںکے مابین ترش کلامی کسی بھی حال میں درست یا بہتر نہیںکہی جاسکتی ۔ تاہم یہ مسئلہ جو ہے اس کو بھی نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ۔ یہ ہزاروں ملازمین کے حقوق ‘ ان سے انصاف اور ان کے مستقبل کا سوال ہے ۔ اگر ملازمین کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے تو اس پر سوال ضرور کئے جاسکتے ہیں۔ملازمین کے مفادات کا تحفظ کرنا اور علاقائی انصاف کیلئے آواز اٹھاناسیاسی قائدین اور خاص طور پر ریاست کے ہونیوالے چیف منسٹر کی ذمہ داری ہے ۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیںکرناچاہئے۔

علیحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کی جدوجہد میں علاقہ کے سرکاری ملازمین نے جورول اداکیا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ ملازمین نے ایک ماہ سے زیادہ وقت تک مسلسل ہڑتال کرتے ہوئے اپنے مطالبہ کومنوانے میںاہم رول ادا کیا ہے۔ اب اگر علیحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا ہے تو ایسی صورت میںبھی برسوں سے ناانصافی کا شکار رہنے والے تلنگانہ ملازمین سے انصاف نہیںکیا گیا تو پھر ملازمین میں بے چینی پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ سیاسی قائدین اور ریاست کے ہونے والے چیف منسٹر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملازمین کے ساتھ انصاف کیلئے جدوجہد کریںاور انہیں ان کے حقوق دلائیں۔ اب جبکہ ریاست تلنگانہ کا قیام عمل میںآ چکا ہے تو تلنگانہ ملازمین کو آندھرا میں تعینات کرنے سے اور آندھرائی ملازمین کو تلنگانہ میں برقرار رکھنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ریاست تلنگانہ کا قیام ایک حقیقت بن چکا ہے اور آندھرائی ملازمین اور قائدین کو یہ حقیقت کھلے دل سے قبول کرنی چاہئے ۔