تلنگانہ میں آج رائے دہی

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
تلنگانہ میں آج رائے دہی
لوک سبھا انتخابات کے 7 مرحلہ کے لئے آج پولنگ ہورہی ہے۔ 7 ریاستوں اور 2 مرکزی زیرانتظام علاقوں کے 89 حلقوں کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ نئی ریاست تلنگانہ میں بھی آج رائے دہی ہوگی۔ تلنگانہ میں لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی کیلئے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہاں تقریباً 2.81 کروڑ رائے دہندے اپنے حق ووٹ سے استفادہ کریں گے۔ 2 جون کو نئی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی نئی حکومت بھی تشکیل پائے گی۔ اس علاقہ میں اسمبلی کے 119 حلقوں اور 17 لوک سبھا حلقوں میں علی الترتیب 1669 اور 265 امیدوار میدان میں ہیں۔ اس اہم عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے بھی عوام میں بیداری پیدا کرنے کی مہم شروع کرتے ہوئے ایک سطری ایس ایم ایس پیام کو عام کیا ہے کہ رائے دہندے اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال درست طریقہ سے کریں۔ ان کے حلقوں کے امیدواروں کا حلفنامہ الیکشن کمیشن کے ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔ جو رائے دہندہ ایک امیدوار کو منتخب کرنا چاہتا ہے تو اس کا دستوری فریضہ ہے کہ وہ امیدوار کے بارے میں بھی جانکاری حاصل کرے۔ دستوری اور جمہوری طرز انتخابات کا حق یہی ہیکہ رائے دہندہ کو آزادانہ اور منصفانہ طور پر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہے۔ تلنگانہ کیلئے یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں خاص کر مسلم رائے دہندوں کو اپنی ریاست کے لئے ایک ایسی حکومت اور ایسے امیدوار کو منتخب کرنا ہے جو بے داغ ہو لیکن بدقسمتی یہ ہیکہ انتخابی عمل سے وابستہ بعض امیدواروں کے دامن اتنے داغدار ہیں کہ وہ اپنے ماتھے پر سیاہی تھوپ کر بھی ڈھٹائی سے ووٹرس کے شعور کو چیلنج کررہے ہیں۔ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنا ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کو اس مرحلہ میں کسی قسم کی تشویش اور فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے لئے یہ آزمائش کی گھڑی بھی آسانی سے گذر جائے گی لیکن ان کے درمیان موجود فرقہ پرست لیڈروں کو سبق سکھانے کیلئے ضروری ہیکہ وہ اپنے سیکولر ووٹ سیکولر پارٹیوں کے حق میں استعمال کرکے ان کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ جو سیکولر ہیں وہ بھی فرقہ پرستوں کا ساتھ دے سکتے ہیںاور دے بھی رہے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی رائے دہندوں کو اپنے سیاسی شعور کے امتحان میں کھرے اترنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انڈین یونین کی 29 ویں ریاست تلنگانہ میں کانگریس تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے علاوہ تلگودیشم، بی جے پی اتحاد نے خود کو اقتدار کے لئے اصل عہدیداروں کی صف میں کھڑا کیا ہے جبکہ دیگر پارٹیاں جیسے وائی ایس آر کانگریس، عام آدمی پارٹی، لوک ستہ پارٹی، سی پی آئی، سی پی آئی ایم بھی میدان میں ہے۔ ٹی آر ایس اور کانگریس کے درمیان راست مقابلہ ہے تو تلگودیشم، بی جے پی اتحاد نے سیکولر رائے دہندوں کو ناراض کردیا ہے۔ حیدرآباد میں برسوں سے مسلم رائے دہندوں کو گمراہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی بقاء کو مضبوط بنانے والی جماعت اب بقا و فنا کے درمیان جھول رہی ہے۔ اس کے قائدین نے ازخود اعتراف کرلیا ہیکہ وہ عرصہ سے گرگٹ، لومڑی اور بندر کا رول ادا کرکے عوام سے ان کے ووٹ حاصل کئے ہیں۔ لہٰذا عوام اب کی مرتبہ اپنا ووٹ کسی گرگٹ، لومڑی یا بندر کے حق میں ڈالتے ہوئے غیر شعوری کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ مقامی جماعت کے قائدین غلیل سے ہاتھی اور توپ سے مکھی مارنے کی سیاست کرتے آرہے ہیں۔ اس مرتبہ کے انتخابات انہیں ان کی حقیقت سے واقف کروانے کا باعث ہوں گے۔ اپنی سیاسی مایوسی کا غصہ اتارنے کے لئے اپنی ہی خصلتوں کا اظہار پارٹی کے ترجمان اخبار میں کرتے آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ وہ اپنے ہی اخبار اور جلسوں کے ذریعہ دل کی درست ترجمانی کرنے لگے ہیں۔ اس لئے رائے دہندوں کو معلوم ہوگیا ہیکہ گرگٹ اس شہر کا ایم پی، لومڑی قائد مقننہ اور پارٹی کے ترجمان اخبار کے ایڈیٹر بندر کے رول میں سرگرم ہیں۔ اس لئے ان کی تحریروں اور تقریروں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ تضاد ہمیشہ مفاد سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے مفاد ہوتا ہے۔ جو جماعت سازشی ذہن رکھتی ہے وہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام نہیں آ سکتی۔ کلمہ حق کہنے کی توفیق سے محروم لوگ لینڈ گرابرس، سودخوروں، دھوکہ بازوں سے مل کر شہر کی بزرگی کو پامال کررہے ہیں۔ جو جماعت فریب کاروں کا چوپال بن جاتی ہے اس کی ابتداء اگرچہ اختیار پر ہے لیکن خاتمہ کا نوحہ بے عنوان ہوتا ہے۔ ان انتخابات میں پرانے شہر کی جدید تاریخ کا سب سے مکار لیڈر سیاہ بختی کا نقارہ بن رہا ہے۔ جس طرح موسمی حالات میں گرمی کی شدت بڑھتے ہی برقی کا بحران پیدا ہوجاتا ہے ان مقامی جماعت کے لیڈروں کے دماغوں میں گرمی کی شدت نے سوچ اور فکر کا بحران پیدا کردیا ہے لیکن عوام الناس اپنے شعور کے سکون کو برقرار رکھتے ہوئے ووٹ دیتے ہیں تو ان کے حق میں انصاف پسند لیڈر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ شہری، علاقائی اور قومی سطح پر عوام کے ووٹوں کو عاقل و بالغ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ووٹ کی غلطی سے فرقہ پرستوں کی سیاسی آندھیاں اس طرح اٹھتی رہیں تو ملک اور شہروں نے چہرے پر فرقہ پرستی کی بہت سی گرد بیٹھ جائے گی۔ تلنگانہ دینے اور لینے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں کانگریس اور ٹی آر ایس نے موقع پرستانہ سیاست میں ملوث ہونے کا ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے رائے دہندوں کو تیسرے متبادل کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔