تلنگانہ علی الحساب بجٹ

وہ بھی ہیں حالات سے کچھ اس قدر مجبور اب
میری مجبوری پہ شاید مسکرایا جائیگا
تلنگانہ علی الحساب بجٹ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے بحیثیت وزیرفینانس اسمبلی میں اپنی حکومت کا علی الحساب بجٹ پیش کرکے لوک سبھا انتخابات سے قبل ایک طرف رائے دہندوں کو دلاسہ دلایا ہے تو دوسری طرف مخالفین کو اشارہ دیا ہیکہ اب وہ ان کے آگے تنقیدوں کا راگ نہ چھیڑ دیں کیونکہ ہم نے تم سے ہی سیکھا ہے اندازِ حکمرانی ۔ گویا چیف منسٹر کے تجربہ سے یہ ظاہر ہورہا ہیکہ وہ اعداد و شمار کے الٹ پھیر کے ذریعہ رائے دہندوں کی پکڑ سے بچ نکلتے ہیں۔ جس سر کو آج دوبارہ حکمرانی ہاتھ لگنے کا غرور ہے، کل اسے اگر نوحہ گری کرنی پڑے تو یہ اس کی عدم کارکردگی کا نتیجہ ہوگی۔ شرمندہ نہ ہونا اور اپنی بات کو درست ٹھہرانے والے قائدین عوام کے قریب زیادہ دن یاد نہیں رہتے۔ تلنگانہ کا یہ علی الحساب بجٹ معاشی ابتری سے نکل کر تلنگانہ کو اونچی سطح پر لے جانے والا بجٹ قرار دینے والی ٹی آر ایس حکومت اور اس کے قائدین ہی جانتے ہیں کہ سچائی کیا ہے۔ ریاست کے زرعی مسائل سے نمٹنے کیلئے چیف منسٹر نے اپنے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی ہے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ ریاست کا زرعی شعبہ کس حالت میں ہے۔ صرف زمینداروں کو فائدہ پہنچانے سے عام کسان کا بھلا نہیں ہوگا۔ سماج کے کمزور اور پچھڑے طبقات کی بہبود و ترقی کیلئے چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے جو رقمی آنکڑے پیش کئے ہیں وہ اس مہم کیلئے کافی ہوں یا ان رقومات کو واقعی بروقت جاری کرکے اسکیمات کو مؤثر بنانے کو یقینی بنایا جائے گا یہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ 2014ء میں جب تلنگانہ تشکیل پائی تھی اس وقت ریاست کا موقف جو کچھ تھا اس میں بہتری لانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن کیا چیف منسٹر ایمانداری سے یہ تسلیم کرسکتے ہیں کہ وہ پانچ سال بعد تلنگانہ کو پہلے سے زیادہ بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ریاست کے کمزور طبقات درج فہرست ذاتوں اور قبائیلوں کے علاوہ اقلیتوں کے لئے انہوں نے 47,483 کروڑ روپئے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ علی الحساب بجٹ کی جملہ رقم کا نصف حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہیکہ آیا اس مختص بجٹ کو دیانتداری سے استعمال کرتے ہوئے بروقت فنڈس جاری کئے جائیں گے کیونکہ ماضی میں جتنے بھی فنڈس مختص کئے تھے انہیں بروقت اجرائی نصیب نہیں ہوئی اور اس شکایت کو حکومت نظرانداز کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہیکہ اس نے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے اور اس کو اپنے وعدوں کی عمل آوری میں تاخیر پسند نہیں ہے۔ کیا چیف منسٹر سے پوچھا جاسکتا ہیکہ انہوں نے کتنے وعدے پورے کئے ہیں اور کتنی رقومات بروقت جاری کی ہیں۔ ان کے تحت چلنے والے محکموں کی مالیاتی رپورٹ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ اسمبلی میں کئے جانے والے بجٹ اعلانات صرف کاغذ کی حدتک رہتے ہیں ان محکموں تک پہنچنے والا فنڈ اسکیمات کو بروئے کار لانے کیلئے ناکافی ہوتا ہے۔ ریاست میں پہلی مرتبہ بیروزگار نوجوانوں کو ماہانہ مالی امداد کی شروعات کی گئی۔ ہر بیروزگار نوجوان کو بیروزگاری بھتہ ملے گا لیکن روزگار نہیں دیا جاسکے گا۔ حکومت کا فرض ہیکہ وہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے لیکن صرف بیروزگاری بھتہ دیکر حکومت اپنی ذمہ داری سے بچ نکلنے کی کوشش کررہی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے اوورسیز اسکالر شپ دینے کی اسکیم بھی شروع کی گئی لیکن ابتداء میں چند روپئے تقسیم کرنے کے بعد اس اسکیم کیلئے مختص رقم کی اجرائی میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ اس لئے سال 2017-18ء کے منتخب مسلم طلباء کو ہنوز رقومات ادا نہیں کئے گئے۔ یہ مسلم نوجوان اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلے لے چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نوجوان حکومت کے بھروسے دوسرے ذرائع سے قرض لیکر باہر چلے گئے لیکن ان نوجوانوں کو اوورسیز اسکالر شپ کی رقم نہیں دی گئی۔ منتخب امیدواروں کو ہی رقومات سے محروم رکھا گیا اور نئی آن لائن درخواستیں وصول کی جاکر ایک آس ویاس کے ماحول میں مسلم طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ اس بات کی جانب توجہ دلائی جاتی ہیکہ حکومت کو اس کی پرواہ نہیں ہوئی۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنے علی الحساب بجٹ میں ریاست کی پیداوار اور ترقی کے بارے میں دل کھول کر بیان کیا ہے اور حالیہ فینانس کمیشن کی ٹیم کے دورہ تلنگانہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ریاست کی ترقی کی شرح بھی بتائی گئی ہے۔ اگر واقعی ریاست کی ترقی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کے ثمرات ہر شہری کو ملنے چاہئے۔
شمیمہ بیگم اور برطانوی شہریت کا مسئلہ
دولت اسلامیہ یا داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی شمیمہ بیگم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگانے والوں نے اس مسئلہ کو دوسرے زاویہ سے دیکھنا شروع کیا ہے۔ 15 برس کی عمر میں برطانیہ سے شام جاکر دولت اسلامیہ کی سرگرمیوں کا حصہ بن جانے کا واقعہ اب قصہ ماضی بن گیا ہے لیکن یہ مسئلہ ان کا تعاقب کررہا ہے کہ انہیں برطانوی شہریت سے محروم کردینے کے بعد مستقبل کیا ہوگا۔ شمیمہ بیگم کے خاندان نے برطانوی وزیرداخلہ کو شمیمہ بیگم کے بارے میں واضح کردیا کہ وہ اپنی بیٹی کو یوں بے یار و مددگار نہیں چھوڑ سکتے البتہ اس کے خیالات سے وہ متفق نہیں ہیں۔ شمیمہ بیگم کے بیانات سے جو ذہنی کوفت ہوئی ، اس سے وقت گذرنے کے بعد حالات کو بہتر بنانے کی جانب کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے۔ شمیمہ بیگم نے جو قدم اٹھایا تھا اس کے عوض انہیں بطور سزاء برطانیہ کی شہریت سے محروم کردیا جائے تو کیا یہ انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ 2015ء میں مشرقی لندن سے روانہ ہونے والی شمیمہ بیگم کو اپنے اس اقدام پر اب افسوس نہیں ہے لیکن وہ برطانیہ واپس آنا چاہتی ہیں تو انہیں روکنے کی کوشش زیادتی سے کم نہیں۔ کل تک شمیمہ بیگم نے جو بیانات دیئے تھے وہ برطانوی اقدار کی نمائندگی نہ کرتے ہوں مگر ان کا پورا خاندان برطانیہ میں مقیم ہے اور ان کا لڑکا بھی برطانوی شہریت کا حقدار ہے تو اس خاتون سے انصاف کرنے کی جانب غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اب واپس ہونا چاہتی ہیں اور برطانوی حکومت سے معذرت خواہی کرتے ہوئے مدد حاصل کرنے کی خواہاں ہیں تو اس کے اس کیس کو انسانی ہمدردی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ شام میں واقع پناہ گزین کیمپ میں مقیم شمیمہ بیگم کے تعلق سے عالمی حقوق انسانی تنظیموں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ واپسی کیلئے ان کے عزم کو پورا کرنے کیلئے کون کون آگے آئے گا یہ وقت ہی بتائے گا لیکن حکومت برطانیہ کو شمیمہ بیگم کے بیٹے کو برطانوی شہریت دینے کے مسئلہ کو طول نہیں دینا چاہئے۔