تلنگانہ حکومت کی اسکیمات

تلنگانہ حکومت کی جانب سے عوام کے حق میں شروع کردہ اسکیمات پر اپوزیشن کو اعتراض ہونا ایک فطری امر ہے ۔ بتکماں تہوار کے موقع پر غریب خواتین میں تقسیم کی جانے والی ساڑیوں کے ناقص ہونے پر غریب خواتین نے بطور احتجاج ان ساڑیوں کو اجتماعی طور پر جلا کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ ریاست کے اضلاع کھمم اور جگتیال اور دیگر مقامات میں پیش آئے واقعات پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے متعلقہ کلکٹرس کو رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت دی اور ساڑیوں کو آگ لگانے والوں کے خلاف کیس درج کرنے کے لیے بھی کہا ۔ اس طرح حکومت کے خلاف اشتعال انگیز واقعات نا پسندیدہ اور افسوسناک ہیں ۔ اپوزیشن پر برہم ہونے والے چیف منسٹر نے ریاستی حکومت کی کارکردگی پر اٹھنے والی انگلیوں کو اپوزیشن کا حربہ قرار دے کر اصل خرابی کو نظر انداز کردیا ہے ۔ جب غریب خواتین نے ناقص ساڑیوں کی تقسیم کا نوٹ لیا ہے تو حکومت کو اس پر توجہ دے کر بہتری کی کوشش کرنے کی ضرورت تھی ۔ بتکماں ساڑی اسکام کی موجودہ جج کے ذریعہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپوزیشن تلنگانہ تلگو دیشم نے ریاست میں غریب خواتین کی توہین کرنے کا معاملہ قرار دیا ہے ۔ حکومت نے آخر ساڑیوں کی تقسیم کے معاملہ میں کوتاہیوں کا پتہ چلانے سے قاصر کیوں ہے ۔ اپوزیشن کی تنقیدوں کا جائزہ لے کر حقیقت کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہئے تھا ۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حکومت نے ان ساڑیوں کو پوچم پلی ، الیورو ، نارائن پیٹ ، گدوال اور کوٹا کوٹہ کے بافندوں سے حاصل کرنے کے بجائے گجرات کے شہر سورت سے خریدی تھیں ۔ سوال یہی اٹھ رہا ہے کہ آخر ٹی آر ایس حکومت نے اپنی ریاست کے بافندوں کو نظر انداز کیا ۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں پر اپوزیشن کا واویلا سیاسی مقصد براری پر مبنی ہو مگر جس طرح کی شکایت سامنے آئی ہے وہ غریب عوام کے ساتھ کئے جانے والے مذاق کے تعلق سے ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کو حکومت کے پروگرام کو سبوتاج کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور مل جاتا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے نیک جذبہ سے ریاست کی غریب خواتین کو بتکماں تہوار کے موقع پر خوشی فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کوشش کو اگر بد دیانت دار عہدیداروں نے سبوتاج کیا ہے تو اس کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کے دیگر پروگراموں کو خراب ہونے سے بچایا جاسکے ۔ حکومت نے ایک کروڑ سے زائد ساڑیاں حاصل کرنے کے لیے ریاست سے باہر کے تاجروں سے ربط پیدا کیا ۔ صرف ریاست تلنگانہ میں اتنی بڑی مقدار میں ساڑیوں کا حصول حکومت کے لیے مشکل تھا تو وہ اس پروگرام کے لیے پیشگی انتظام بھی کرسکتی تھی اور ریاست کے بافندوں کو بھی فائدہ پہونچا سکتی تھی ۔ حکومت اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی کرنا چاہتی ہے تو اس ایک معاملہ میں وہ بچ جائے گی مگر دیگر امور اور پروگراموں میں ہونے والی خرابیوں کو بھی اس نے نظر انداز کیا تو اس کی خرابیاں حکومت کی نیک نامی کو متاثر کرسکتی ہیں ۔ بلا شبہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی حکمرانی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ان کی بعض اسکیمات اور پروگراموں کو مثالی قرار دیا جارہا ہے ۔ دیگر ریاستوں کے چیف منسٹرس کے علاوہ مرکزی قائدین بھی تلنگانہ حکومت میں شروع کردہ عوامی بہبودی پروگراموں کی ستائش کی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود جب غریبوں کے حق میں کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس کو دیانتدارانہ طریقہ سے انجام دینے کی ضرورت ہے ۔ 1.04 کروڑ ساڑیوں کے لیے 224 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں ۔ اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد حکومت پر ناقص ساڑیوں کی تقسیم کا الزام عائد ہوتا ہے تو اس پروگرام میں کہیں نہ کہیں لاپرواہی اور بدعنوانی ہوئی ہوگی جس کا نوٹ لیا جانا چاہئے ۔ اپوزیشن کو بھی کسی بھی معاملہ کی تحقیقات کے بغیر واویلا مچانے سے پرہیز کرنا ہوگا کیوں کہ جمہوریت میں اپوزیشن کا رول تعمیری نوعیت کا ہونا ضروری ہے ۔ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں کو درست طریقہ سے عوام تک پہونچانے اور عوام کے لیے منفعت بخش بنانے میں موثر رول ادا کرنا چاہئے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اپنی حکومت کے ماباقی ایام کے دوران عوامی اسکیمات کی عمل آوری میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہونے دینے کو یقینی بنانا ہوگا ۔ ریاست میں عوام خاص کر طلباء برادری میں بھی حکومت کی اسکیمات پر عمل آوری میں کوتاہیوں کی شکایت ہے ۔ خاص کر اسکالر شپ اور فیس باز ادائیگی سے محروم طلباء کو اپنے تعلیمی مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ چیف منسٹر اس جانب بھی فوری توجہ دیں تو طلباء کا تعلیمی مستقبل تباہ ہونے سے بچ جائے گا ۔۔