تلنگانہ حکومت میں بے روزگار نوجوانوں میں شدید مایوسی اور برہمی

ٹی آر ایس حکومت میں تمام طبقات مشکلات کاشکار ہےں۔عام آدمی ‘ کسانوں کے علاوہ بے روزگار نوجوانوں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے ۔روزگار کی فراہمی کے معاملہ میں ٹی آر ایس حکومت کی ٹال مٹول پالیسی نے بے روزگار وں میں شدید برہمی کی لہر پیدا کردی ہے۔تعلیم یافتہ نوجوان حکومت کی ناقص کارکردگی سے عاجز آچکے ہیں۔ماقبل انتخابات ٹی آرایس سربراہ چندرشیکھر راﺅ نے ہر گھر سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا تاہم اقتدار پر فائز ہونے کے بعد اس وعدہ کو بالکلیہ طورپر نظر انداز کردیا گیا۔بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتوں کی فراہمی کے نام پر صرف خوش کن اعلانات کئے جارہے ہیں۔ٹی آر ایس کے اقتدار پر فائز ہوکر ساڑھے تین سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے اس دوران مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کے معاملہ میں بھی ریاستی حکومت پچھڑ گئی ہے ۔روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے معاملہ میں حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث ریاست میں صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے۔طلبہ کے خودکشی واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔تلنگانہ تحریک میں تمام شعبہ جات سے وابستہ افراد کے علاوہ طلبہ نے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا تھا ۔قیام تلنگانہ کےلئے طلبہ نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔تلنگانہ عوام کے جذبات و احساسات کو ملحوظ رکھتے ہوئے صدر کل ہند کانگریس سونیا گاندھی نے علحدہ ریاست کا قیام عمل میں لایا۔قیام تلنگانہ کے بعد جھوٹے وعدوں کے ذریعہ ٹی آر ایس پارٹی برسراقتدار آئی۔

ریاست تلنگانہ میں بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے ۔بامبئے اسٹاک ایکسچینج اور سنٹرل فارمانیٹرنگ انڈین اکنامی کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق بے روزگار کے معاملہ میں ریاست تلنگانہ ‘ سارے ملک میں تیسرے نمبر پر ہے ۔تلنگانہ میں بے روزگار نوجوانوں کی شرح 18.59ریکارڈ کی گئی ہے۔اس سروے سے روزگار کے معاملہ میں حکومت کی ناکامی کا پتہ چلتا ہے ۔ریاست تلنگانہ میں روزگار کی فراہمی کےلئے حکومت کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کررہی ہے۔مختلف وعدوں کے ذریعہ بے روزگار نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔اگر یہی صورتحال رہی تب ریاست میں بےروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا اور بیروزگاری میں سرفہرست آسام اور دوسرے نمبر پر موجود جموںکشمیر کو بھی تلنگانہ پیچھے چھوڑ دے گی۔

چیف منسٹر کے چندر شیکھر راﺅ نے ریاستی اسمبلی میں متعدد مرتبہ اعلان کیا کہ حکومت ایک لاکھ بارہ ہزار سرکاری ملازمتوں پر جلد از جلد تقررات کرے گی یہ وعدہ گذشتہ تین سال سے متواتر و مسلسل کیا جارہا ہے تاہم آج تک عمل آوری ندارد ہے۔گذشتہ ساڑھے تین سال کے دوران تلنگانہ حکومت نے صرف بیس ہزار سرکاری جائیدادوں پر تقررات عمل میں لائے ان تقررات میں بھی بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کی شکایتیں عام ہیں ۔ریاست تلنگانہ میں منظورہ سرکاری جائیدادوں کی تعداد 5 لاکھ 23 ہزار 673 ہے جن میں 3لاکھ15 ہزار 849جائیدادوں پر ملازمین برسرکار ہیں۔اس طرح مختلف محکمہ جات میں تقریباً 2لاکھ 53 ہزار 826 جائیدادیں مخلوعہ ہیں صرف روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن‘ برقی اور دیگر کارپوریشنوں میں 50 ہزار جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو ریاست تلنگانہ میں لگ بھگ 3 لاکھ سرکاری جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ریاستی حکومت مخلوعہ جائیدادوں کی تفصیلات پیش کرنے میں پس و پیش کررہی ہے۔

چیف منسٹر کے علاوہ تمام وزراءسرکاری ملازمتوں کی تفصیلات سے متعلق متضاد بیانات دے رہے ہیں۔گذشتہ تین برسوں کے دوران ریاست میں 500 سے زائد اقامتی اسکولس قائم کئے گئے ۔اقامتی اسکولس میں تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف کا کنٹراکٹ کی اساس پر تقررعمل میں آیا۔مذکورہ اقامتی اسکولس میں ہزاروں سرکاری جائیدادوں پر تقررات کی ضرورت ہے۔ریاستی حکومت نے نظم و نسق میں بہتری اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نام پر 21 نئے اضلاع کا قیام عمل میں لایا تاہم نئے اضلاع میں ایک بھی نئی جائیداد نہ ہی منظور کی گئی نہ ہی کوئی تقررات عمل میں لائے گئے۔کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔محکمہ برقی میں ہزاروں ملازمین کنٹراکٹ کی اساس پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔شعبہ تعلیم کو اولین ترجیح دینے کے بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں تاہم اسکولس ‘ کالجس‘ یونیورسٹیز میں تدریسی عملہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔

چیف منسٹر کے چندر شیکھر راﺅ تمام محاذوں پر ناکام ہوچکے ہیں تاہم جھوٹے وعدوں اور بلند بانگ دعوﺅں میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔سنگارینی یونین کے انتخابات میں کامیابی کےلئے ملازمین کے وارثین کوملازمتوں کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا تھا تاہم انتخابات میں کامیابی کے بعد اس وعدہ کو بھی عدالتی فیصلہ کا بہانہ بناتے ہوئے برفدان کی نذر کردیا گیا ہے۔تلنگانہ میں گذشتہ تین سال کے دوران پانچ ہزار سے زائد صنعتیں قائم ہوئیں ۔ایک لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری کا دعوی کیا جارہا ہے تاہم ان صنعتوں میں تلنگانہ کے کتنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا گیا اس سلسلہ میں کچھ بھی بتانے سے حکومت قاصر ہے۔ایس سی ‘ بی سی‘ایس ٹی اور اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو کوئی فنڈس جاری نہیں کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے خودروزگار اسکیمات ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔بے روزگار نوجوانوں کو مختلف فنی کورسس کی تربیت کا موثر نظم نہیں کیا جارہا ہے۔بنکوں کی جانب سے قرضہ جات کی فراہمی مسدود ہے۔

ریاستی حکومت نے طویل انتظار کے بعد اساتذہ کی 8792جائیدادوں پر تقررات کےلئے اعلامیہ جاری کیا یہ معاملہ ہائی کورٹ سے رجوع ہوگیا اب حکومت اساتذہ کے تقررات کےلئے اندرون 10 یوم نیا اعلامیہ جاری کرنے والی ہے۔ریاست تلنگانہ میں بی ایڈ اور ڈی ایڈ کامیاب لاکھوں طلبہ ملازمت کے منتظر ہیں تاہم حکومت کی مجہول پالیسی کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں میں برہمی پائی جاتی ہے۔

ٹی آر ایس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں ریاست کی ہمہ جہت ترقی کے علاوہ تمام شعبہ جات کے فروغ کےلئے کئی اعلانات کئے تھے جس میں بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی کا وعدہ بھی شامل تھا ۔عوام بالخصوص نوجوانوں کی خاصی تعداد نے ٹی آر ایس پارٹی کے بلند بانگ دعوﺅں اور خوش کن وعدوں پر بھروسہ کیا اور اسے ووٹ دیا۔اقتدار پر فائز ہونے کے بعد ٹی آر ایس نے تمام وعدوں سے انحراف کیا ۔انتخابات میں ٹی آر ایس سربراہ کے چندرشیکھر راﺅ کے شانہ بہ شانہ چلنے والے کوڈنڈارام بھی آج حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوچکے ہیں وہ حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں اس سے یہ بات صاف طورپر ظاہر ہوتی ہے کہ ٹی آر ایس کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہے اور یہ حکومت زیادہ دنوں تک عوام بالخصوص بے روزگار نوجوانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔آئندہ انتخابات میں عوام اور نوجوان ٹی آر ایس پارٹی کو مناسب سبق سکھائیں گے