تلنگانہ بل پر ہنگامہ آرائی

حقیقت کو بدلنا آپ کے بس میں نہیں لیکن
حقیقت کے مطابق خود کو کرلیں یہ تو ممکن ہے
تلنگانہ بل پر ہنگامہ آرائی
آندھرا پردیش اسمبلی میں تلنگانہ بل پر مباحث کا عملی طور پر آغاز ہی نہیں ہوسکا ہے ۔ ایوان میں تلنگانہ کے مخالف اور حامی ارکان اسمبلی کے مابین ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کا سلسلہ جاری ہے ۔ مخالفین تلنگانہ کی جانب سے اس بل پر مباحث کے آغاز کو ہی روکا جا رہا ہے ۔ ابتداء میں تواس بل کی ایوان میں پیشکشی ہی کو روکا گیا ۔ ایوان کو تعطیلات دیدی گئیں اور پھر جب دوبارہ آغاز ہوا تو بل تو پیش کردیا گیا لیکن اس پر مباحث شروع نہیں ہوسکے ہیں۔ صدرجمہوریہ ہند پرنب مکرجی نے یہ بل ایوان کو رائے دینے کیلئے روانہ کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ کی مخالف جماعتیں ایوان میں اس پر مباحث ہونے کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ خود حکومت کا رویہ بھی مخالف تلنگانہ ہے اور اس نے اپنے ہر عمل سے واضح کردیا ہے کہ وہ تلنگانہ کی مخالف ہے اور تلنگانہ بل پر مباحث کو روکنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے ۔ ایوان کے دوبارہ آغاز سے عین قبل امور مقننہ کے وزیر کا قلمدان تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈی سریدھر بابو سے واپس لیتے ہوئے متحدہ آندھرا کے حق میں شدت سے مہم چلانے والے ٹی جی وینکٹیش کو سونپا جانا خود یہ ثبوت ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ تلنگانہ کے بل پر ایوان میں مباحث ہوسکیں اور یہ بل وقت پر صدر جمہوریہ کو واپس کیا جاسکے ۔اسپیکر اسمبلی نے اس بل کی ایوان میں باضابطہ پیشکشی سے قبل دیگر ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے وہاں تقسیم ریاست کے سلسلہ میں اختیار کئے گئے طریقہ کار کا جائزہ لیا اور تفصیلات سے آگہی حاصل کی تھی ۔ حالانکہ اس کی تفصیلات کا ابھی علم نہیں ہوسکا ہے لیکن ریاست کی سیاسی جماعتیں اس معاملہ میں کسی بھی طرح سے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اسمبلی میں مباحث کے آغاز کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ ہنگامہ آرائی کا سلسلہ گذشتہ تین دن سے جاری ہے اور ہر روز چند منٹ کے اندر اندر ایوان کی کارروائی کو ملتوی کیا جارہا ہے ۔ ایوان میں نعرہ بازیاںاور پوسٹر بازی تک بھی چل رہی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ امور مقننہ کا قلمدان رکھنے والے ٹی جی وینکٹیش خود ایوان میں پوسٹرس کے ساتھ دیکھے گئے اور نعرے لگا تے رہے ۔کسی وزیر کی جانب سے اس طرح کے رویہ کی ایسی مثال شائد پہلے نہیں مل پائیگی ۔ ان کا رویہ حکومت کے امیج کو داغدار بنا رہا ہے اور شائد انہیں اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے ۔

ایسی صورتحال میں جبکہ ایوان میں تقسیم ریاست کے بل پر مباحث ہونے چاہئیں وائی ایس آر کانگریس کی جانب سے ریاست کو متحد رکھنے کے حق میں قرار داد منظور کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ تلگودیشم کی آواز ایوان میں بٹی ہوئی ہے ۔ اس کے تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی تلنگانہ قرار داد پر مباحث چاہتے ہیں تو سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی چاہتے ہیں کہ ریاست کومتحد رکھا جائے ۔ یہ ارکان اسمبلی بالواسطہ طور پر وائی ایس آر کانگریس کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایوان میں متحدہ ریاست کے حق میں قرار داد منظورہوسکے ۔ صدر جمہوریہ ہند نے جو بل ایوان کو روانہ کیا ہے اس میں صرف مباحث کی گنجائش ہے اور کسی طرح کی رائے دہی کی گنجائش فراہم نہیں کی گئی ہے لیکن چیف منسٹر کرن کمار ریڈی بارہا یہ واضح کر رہے ہیں کہ ایوان میں بل کے ہر ہر دفعہ کے تعلق سے رائے دہی کروائی جائیگی ۔ اس طرح وہ صدر جمہوریہ کے روانہ کردہ بل میں اپنی مرضی سے نئی بات پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کا انہیں کوئی دستوری حق حاصل نہیں ہے ۔ وہ صرف اپنے سیاسی مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس طرح کی حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے وہ بھی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ تلنگانہ کے ارکان اسمبلی بل پر مباحث کے آغاز کے خواہاں ہیں تو سیماآندھرا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نہیں چاہتے کہ ریاست تقسیم ہو ۔ اسی لئے وہ ایوان میں مباحث کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کی جا رہی ہے ۔ کسی کو بھی صدر جمہوریہ کے روانہ کردہ اس بل کی اہمیت کا پاس و لحاظ نہیں ہے اور ان کا یہ رویہ جمہوری اقدار اور دستوری ذمہ داریوں کے یکسر مغائر ہے ۔ انہیں اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔

مسلسل ہنگامہ آرائی ایوان کا نظم متاثرکرنے کی کوشش ہے ۔ سیما آندھرا کے ارکان اسمبلی اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں لیکن ایوان میں نظم بحال کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔ جو ارکان مسلسل ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں انہیں ایوان سے معطل کرتے ہوئے بھی مباحث کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اسپیکر نے اس سلسلہ میں ایک طرح سے پہل کی ہے اور انہوںنے 10 جنوری تک ارکان کو اپنے اعتراضات اور ترامیم پیش کرنے کی مہلت دی ہے ۔ اس سے ایوان میں نظم بحال کرنے اور مباحث کو یقینی بنانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ ارکان کی جو کچھ بھی رائے ہوسکتی ہے انہیں ایوان میں پیش کرنا چاہئے نہ کہ کارروائی کو متاثر کرنا چاہئے ۔ انہیں اپنے خیالات پیش کرنے اور ان سے صدر جمہوریہ کو واقف کروانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن ان پر ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میں چلنے کی اجازت دینے کی دستوری ذمہ داری بھی ہے جو انہیں بہرحال پوری کرنی چاہئے ۔ ایوان میں بل پر مباحث سے گریز ایک طرح سے حقیقت سے فرار کے مترادف بھی ہے اور حقیقت سے فرار مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔ انہیں حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے اپنے موقف میں تبدیلی لانی چاہئے ۔