تلنگانہ اسمبلی میں ہنگامہ

یہ بات حقیقت ہے کہ اس نصف صدی میں
دستور مساوات کا کردار نہیں ہے
تلنگانہ اسمبلی میں ہنگامہ
تلنگانہ قانون ساز اسمبلی و کونسل میں اپوزیشن کے رول پر ہر سیاسی گوشے سے تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ گورنر ای ایس ایل نرسمہن کے خطبہ کے دوران کانگریس ارکان کا احتجاج اور مائیک پھینک کر حملہ کرنے کی پاداش میں ایوان نے ندائی ووٹ سے احتجاجی کانگریس ارکان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہ بدبختانہ واقعہ تھا ، ایوان اسمبلی و کونسل میں نظم و ضبط کی برقراری کو یقینی بنانا کرسی صدارت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسمبلی میں کانگریس پارٹی، اپوزیشن کے طور پر جمہوری طرز پر احتجاج کرنے کا حق رکھتی ہے مگر سڑک کی لڑائی کا طرز اختیار کرنا قابل مذمت حرکت ہے۔ کانگریس ارکان کے ہاتھوں کونسل چیرمین کے سوامی گوڑ کی آنکھ زخمی ہوگئی اس پر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے اپوزیشن کانگریس کو انارکی پیدا کرنے والی پارٹی قرار دیا۔ ایوان میں احتجاجی مظاہرے شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے مناظر کوئی نئی بات نہیں ہیں لیکن کانگریس ارکان پر الزا م ہے کہ انہوں نے گورنر کے خطبہ کے دوران مائیکس، ہیڈ فونس، قلم اور آئی گلاسیس پھینک کر جس طرح کی اودھم مچائی تھی اس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ایوان میں یہ حرکت تمام سیاستدانوں کیلئے تکلیف کا باعث بنی ہے۔ وزیر آبپاشی ٹی ہریش راؤ نے کانگریس ارکان کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتے ہوئے اس پارٹی کی حرکت کو حقیر، بیہودہ اور اخلاق سوز قرار دیا۔ہر سیاسی لیڈر اپنے عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اس کو ایوان کے اندر اور باہر سیاسی اخلاقیات کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ مہذب معاشرہ کے نمائندہ کی حیثیت سے عوامی مسائل کو اُٹھانا ہوتا ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اپوزیشن نے شرافت، تحمل، برداشت، بردباری اور اُصولی سیاست کے بنیادی وصف کو ہی فراموش کردیا۔ چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ اپنی ریاست اور ایوان اسمبلی میں نظم و ضبط کی برقراری کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں، ریاست کی مثالی ترقی میں آج سارے ملک میں ستائش ہورہی ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر نے ملک میں اپنی ریاست اور اسمبلی کی کارکردگی کو ایک شاندار مثال بنانے کی جانب کوشش کی مگر وہ کانگریس کے اپوزیشن کردار کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے جس کے نتیجہ میں کانگریس نے اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ اگر چیف منسٹر نے ایوان کے اندر اور باہر اپوزیشن کے وجود کو جمہوری حسن کی شان متصور کرکے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن کی آواز کی سماعت کو ترجیح دیتے تو شاید کانگریس ارکان کو اس طرح شدید ردِ عمل کی ضرورت آن نہ پڑتی۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکمراں پارٹی کو بھی یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ایوان اسمبلی و کونسل میں وہ عوام کے لئے جوابدہ ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ حکمراں پارٹی بھی جمہوری سیاست کی خوبیوں سے محروم ہورہی ہے۔ گورنر کے خطبہ کے موقع پر ایوان میں جو مذموم واقعہ پیش آیا وہ اپوزیشن کے سیاسی عدم برداشت اور بداخلاقی کا انتہائی افسوسناک مظاہرہ تھا۔ گورنر، تلنگانہ حکومت کی پالیسیوں، اسکیمات اور پروگرامس پر اظہار خیال کے لئے ایوان میں مائیک پر موجود تھے انھیں اپوزیشن کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا، یہ ایک گورنر کی شان میں ہتک عزت کا واقعہ تھا۔ تلنگانہ جیسی ہمہ ثقافتی و تہذیب و تمدن کی ریاست میں اگر کوئی اپوزیشن جماعت کے ارکان غیر اُصولی اور غیر اخلاقی مظاہرہ کرتے ہیں تو تلنگانہ کی تہذیب کے لئے ناقابل برداشت کہا جائے گا۔ اپوزیشن اور حکمراں پارٹی کے ارکان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ ایوان میں عوام کے منتخب نمائندوں کے طور پر موجود ہوتے ہیں، انہیں ہر سطح پر ممکنہ حد تک تحمل اور برداشت سے کام لے کر عوام کے مسائل پر بحث و مباحث کرنا ہوتا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے اندر ازخود اخلاق کا ضابطہ تیار نہیں کیا گیا تو آنے والے دنوں میں سیاستدانوں کے رویہ پر رائے دہندے بھی اپنی ناراضگی ظاہر کرکے ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھس تک جانے کا بائیکاٹ کریں گے۔ کیا رائے دہندوں کو ایسا کرنے کے لئے مجبور کیا جاسکتا ہے ، کیا سیاسی نمائندے چاہتے ہیں کہ انہیں عوام سڑک کے غنڈوں سے تعبیر کریں۔ حکمراں پارٹی اوراپوزیشن ارکان کے درمیان سیاسی اختلافات ہونا فطری امرہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اختلافات کو گھونسہ بازی، ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کے ذریعہ ایوان کے نظم کو درہم برہم کردیا جائے۔ اسمبلی میں قرارداد کے ذریعہ کانگریس کے دو ارکان کو خارج کردیا گیا اور 11 کو معطل کردیا گیا۔ کانگریس ایک قومی جماعت ہے اسے اپنے ریاستی ارکان کا نوٹ لیتے ہوئے ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کیا گیا تو جمہوریت کے تقدس کو پامال کرنے والے واقعات بدبختانہ حد تک بڑھ جائیں گے پھر عوام کا سیاسی پارٹیوں پر سے اعتماد اُٹھتا چلا جائے گا۔