تشدد کی انتہا۔ شوپیان اپریشن سے خفیہ جانکاری حاصل کرنے کے ذرائع کو ملے فروغ کی وضاحت‘ مگر کیاگیا کام تنقید کے نشانے پر

کشمیر۔ اتوار کے روز جموں او رکشمیر میں تیرہ دہشت گردوں کی تین اپریشن میں ہلاکت سے ثابت ہوگیا ہے کہ فوج کے پاس موجود مقررہ وقت پر خفیہ جانکاری کے ذرائع میں کافی ترقی ہوئی ہے تاکہ وقت پر دہشت گردوں کا صفایا کیاجاسکے۔ پولسنگ کے معاملے میںیہ کامیابی کوئی معمولی نہیں ہے۔

فوج کے ایک عہدیدار نے اس کو ’’کشمیر میں دہشت گردوں سے مقابلے کا ایک خصوصی ‘‘ دن قراردیا ہے۔

مگر مذکورہ ہلاکتوں پر کوئی اطمینان یا ستائش نہیں دیکھی گئی۔کشمیری اس واقعہ کے دن کو ’’ سیاہ اتوار ‘‘ کس طرح قراردے سکتے ہیں۔تمام تیرہ کشمیری نوجوان تھے ‘ وہیں بارہ کاشوپیان کے دیگر دیہاتوں سے تعلق تھااور ایک طویل جدوجہد کے بعد وادی میں فوری طور پر درکار امن کی بحالی کی طرف توجہہ دہانی کراتے ہوئے تشدد پر قابو پالیاگیا۔

پچھلے کچھ مہینوں میں وادی کے اندر سال2016کے بعد حالات کچھ حد تک بہتر ہوئے ہیں‘ اس کی وجہہ سکیورٹی فورسس نے دوسو سے زیادہ دہشت گرد وں اور ان کے کمانڈرس کو پچھلے ایک سال میں صاف کردیا ہے۔اس کا مطالب یہ نہیں ہے کہ جو اعداد وشمار پیش کئے جارہے ہیں وہ کشمیری نوجوانوں کے اسی دوران ہتھیار اٹھانے کی حمایت کرتے ہیں۔یہ ملک کا اجتماعی ناکامی ہے کہ انہیں اس طریقے پر فیصلے لینے کے لئے مجبور کیاگیا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں مرکز نے وادی کے حالات میں سدھار کے لئے طاقت کے استعمال کو درست مانا ہے۔

مگر ایک کشمیری کی سکیورٹی فورسس کے ہاتھوں موت وادی میں ایک نئے حالات کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہے اور مزید شدت پسندی کو فروغ دینے کی وجہہ بن رہا ہے۔کشمیر میں نعشوں کی گنتی سے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعہ کامیابی کا حصول ممکن ہے۔چاہے پاکستان ہو یا کشمیری یہ بات سچ ہے کہ مرکز کو ان تمام چیزوں کاسامنا کرنا ہے۔

اگر اس بات کو قبول کیا جائے کہ کشمیر داخلی معاملے ہے اور صرف خط قبضہ کو لے کر پاکستان سے معاملات طئے کرنا ہے اور پھرکشمیروں سے بات چیت بلاشبہ غیر ضروری ہوگی۔ایسے وقت مذکورہ حریت کے لیڈران وادی پر اثر انداز دیکھی گئی۔ معاملے میں خود کوگھسیٹ کرجڑنے کی کوشش میں مصروف ہے‘ اور گیند اپنی طرف لے رہا ہے

۔اتفاق کی بات ہے کہ اسی آرمی افیسر نے بتایا کہ اتوار کے روز مارے گئے دہشت گردوں میں وہ دولوگ بھی شامل تھے جنھوں نے کشمیری افیسر لفٹنٹ عمر فیاض کو پچھلے سال قتل کردیاتھا۔درایں اثناء یہ بات بھی سامنے ائی ہے کہ ہر کشمیری نوجوان انصاف کے نام پر ہتھیار اٹھانے کے راستے کو اپنانا چاہتا ہے۔