تشخیص کے بعد اپنی ساری دولت خیرات کرنے والے ارب پتی کی کینسر سے موت

اپنی زندگی کی پوری کمائی اور خیرات کردینے کے واقعات جذباتی کردیتے ہیں ‘ امداد کے لئے رقم دینا ان کی انسانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مگر اس نوجوان نے ایک ایسے وقت میں اپنی دولت خیرات کردی جب وہ نہایت پریشان کن حالات میں تھا کیونکہ 2015میں اس کو تشخیص کے بعد خبر ہوئی تھی کہ وہ مہلک کینسر کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ رقم اس کے اندر نمایاں تبدیلی کے لئے استعمال کی جاسکتی تھی۔

اس ہفتہ فوت ہونے والی آسٹریلیاء کے شہر سڈنی کے ساکن علی بنات کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر سے پہلے نہایت عالیشان زندگی گذار رہے تھے۔ اب لوگ ان کی چیاریٹی ’’ مسلمس ارونڈ دی ورلڈ‘‘ کو عطیہ دینا شروع کئے ہیں جس کے ساتھ ہی یہ رقم 1041438ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور میٹرو کے مطابق سکینڈ میں مزید عطیات وصول ہوئے ۔

https://www.youtube.com/watch?v=d6xKuI_Dr_E

ابتداء میں علی نے کہاتھا کہ وہ سات ماہ تک ہی زندہ رہیں گے ‘مگر وہ حقیقت میں لگائے گئے اندازے سے دوسال تک زندہ رہے ۔صنعت کار اور فلسفار نے جمع کی ہوئی آخر ی سال کی رقم سطح غربت سے نیچے کی زندگی گذارنے والے مسلمانوں پر اس وقت خرچ کی جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی سانسیں زیادہ وقت تک چلنے والی نہیں ہیں۔

تشخیص کے قبل علی کی زندگی عالیشان تھی جس میں تیز دوڑنے والی کاریں‘ ڈیزائنر کپڑے اور دیگر قیمتی سازوسامان استمال ہوتے تھے۔ وہ صرف لوئس ویاٹون کے جوتے پہنتے تھے اور ان کے پاس ساٹھ ہزار آسٹریلیائی ڈالرس کی قیمتی براسلیڈ تھے ۔

ان کی کاروں میں سے ایک کار فیراری اسپائیڈر تھی جس کی قیمت چھ لاکھ اسڑیلیائی ڈالر تھی۔ جیسے ہی وہ بیمار ہوئے تو انہیں احساس ہوا کہ اس میں سے کچھ بھی ان کے معاملات میں نہیں ہے اور کہاکہ’’ جب تمہیں پتہ چل جائے کہ تم بیمار ہوگئے ہواو رتمہارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے‘ یہ اخری چیز ہے جس کا تمہیں تعقب کرنا ہوگا۔

اور پھر کس طرح ہرروز اپنی زندگیاں گذارتے ہیں دیکھنا ہوگا‘‘۔ون پاتھ نٹ ورک کی جانب سے یوٹیوب پر پیش کی گئی مختصر ڈاکیومنٹری میں علی نے اپنی بیماری کو ایک تحفہ قراردیا ہے۔

او ر جب ان سے زبان کے انتخاب پر پوچھا گیاتو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ یہ ایک تحفہ ہے کیونکہ اس کو تبدیل کرنے کا مجھ اللہ نے موقع دیا ہے‘‘۔ جب انہیں تشخیص میں بیماری کے متعلق جانکاری ملی تو علی نے اپنی کاروبار فروخت کرکے افریقہ کے ٹوگو چلے گئے جہاں پر 55فیصد آبادی سطح غربت سے نیچے کی زندگی گذاررہی ہے۔

بارہ سے بیس فیصد مسلم آبادی ہوئی تو علی نے فوری طور پر فیصلہ کیاکہ ایک مسجد تعمیرکریں اور ساتھ ہی ساتھ ایک اسکول قائم کرکے اس کے بعد انہوں نے مسلم ارونڈ دی ورلڈ کی بنیاد ڈالی۔

مذکورہ پراجکٹ میں منی میڈیکل سنٹر بھی زیر تجویز تھا جس کے لئے مقامی لوگوں کی بھی مدد ملی اور ایک اسکول جس میں چھ سو یتیم بچوں اور دوسوبیواؤں کے لئے رہائش قائم کی گئی ۔بڑی تبدیلی علی نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ اللہ علی بنات کی مغفرت کرے