تریپورہ میں انسانی اعضاء کی تجارت کیلئے بچوں کے اغوا کی افواہیں

سوشیل میڈیا پر گمراہ کن پروپگنڈہ ، دو دِن میں 3 بے قصور افراد جنونی ہجوم کے تشدد میں ہلاک ، افواہوں کیخلاف مہم چلانے والے شخص کو بھی ہجوم نے مارڈالا

نئی دہلی۔ 30 جون (سیاست ڈاٹ کام) سوشیل میڈیا پر چلائی جانے والی افواہوں کے سبب جان لیوا تشدد کے واقعات میں ہولناک اضافہ کی تازہ ترین مثال کے طور پر تریپورہ میں انسانی اعضاء کی تجارت کیلئے بچوں کے اغوا کی افواہوں کے سبب دو دن کے دوران 3 افراد جنوبی ہجوم کے وحشیانہ زدوکوب میں ہلاک ہوگئے۔ سب سے اہم اور افسوسناک امر تو یہ ہے کہ وہ شخص بھی اس دیوانہ وار تشدد میں جان گنوا بیٹھا جو افواہوں کے انسداد کی مہم چلانے کیلئے تریپورہ کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کی طرف سے خصوصی طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ 33 سالہ سوکانتا چکرورتی بھی ان 3 افراد میں شامل ہیں جو انسانی اعضاء (گردوں وغیرہ) کی تجارت کیلئے بچوں کو مشتبہ افراد کی طرف سے اٹھائے جانے سے متعلق سوشیل میڈیا پر پھیلائی جانے والی افواہوں کے سبب دو دن کے دوران برہم ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کئے جاچکے ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ چکرورتی کی زندگی ان ہی افواہوں کی نذر ہوئی ہے جن کے انسداد و ازالہ کیلئے وہ عوامی مقامات پر لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعہ اعلان کرایا تھا کہ ’’بچوں کو پکڑے جانے کی افواہوں پر توجہ نہ دیں‘‘۔ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس سمرتی انجن داس نے اگرتلہ میں اخباری نمائندوں سے کہا کہ ’’ایک ہجوم نے کالچرہ میں اس (چکرورتی) کی گاڑی پر حملہ کردیا جب وہ سبرام واپس ہورہا تھا۔ وہ برسرموقع ہلاک ہوگیا لیکن اس کا ڈرائیور جو خود بھی ہجومی تشدد اور بری طرح زدوکوب کا نشانہ بنا تھا، شدید زخموں کے ساتھ زندہ بچ گیا ہے‘‘۔ قبل ازیں تریپورہ غربی کے علاقہ مورا باری میں مقامی افراد نے بہار اور اُترپردیش سے تعلق رکھنے والے تین پھیری لگانے والوں کو مشتبہ طور پر بچے پکڑنے والے سمجھ کرشدید زدوکوب کا نشانہ بنایا تھا۔ برہم ہجوم سے بچنے کیلئے وہ تریپورہ اسٹیٹ رائفلس کیمپ میں پہونچ گئے تھے لیکن عوام نے ان کا تعاقب کیا اور پولیس کی طرف سے طاقت کے استعمال کے باوجود جنونی تشدد میں ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا جس کی شناخت ذاکر خان ساکن اترپردیش کی حیثیت سے کی گئی ہے۔سپاہی جھالا کے بشال گڑھ میں ایک عورت کو جس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، جنونی ہجوم نے بچوں کا اغوا کرنے والی سمجھ کر وحشیانہ انداز میں پٹائی کی جس کے نتیجہ میں وہ تڑپ تڑپ کر فوت ہوگئی۔ تریپورہ کے ڈائریکٹر جنرل پولیس اے کے شکلا نے افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کیلئے جمعہ کی دوپہر سے ہفتہ کو دوپہر 2 بجے تک ریاست بھر میں ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ ڈیٹا سرویسیس معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف منسٹر بپلب دیو نے عوام سے ان افواہوں پر یقین نہ کرنے کی اپیل کی ہے اور الزام عائد کیا کہ بی جے پی حکومت کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے سی پی آئی (ایم) کی طرف سے سازش کے طور پر یہ افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ بچوں کے اغوا کی افواہوں پر ہجومی تشدد میں ہلاکت کا پہلا واقعہ 31 مئی کو آسام کے کاربی آنگ لانگ ضلع میں پیش آیا تھا۔ جنونی ہجوم نے اس واقعہ میں ایک بڑے اور خوشحال خاندان کے دو افراد کو مار مار کر ہلاک کردیا تھا، حالانکہ ان دونوں بے قصور افراد کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔