تحفظات ‘ کے سی آر اور مسلمان

کہو ظالم مسیحا سے کہ چل کر ہم تلک آئے
لہو روتی ہوئی آنکھوں میں تھوڑی سی چمک آئے
تحفظات ‘ کے سی آر اور مسلمان
مسلم تحفظات پر وعدہ کی عدم تکمیل کارگذار چیف منسٹر تلنگانہ و سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راو کیلئے مہینگی پڑتی جا رہی ہے ۔ جہاں مسلمان اس مسئلہ پر مختلف سطح پر احتجاج کر رہے تھے اور انتخابات کے دوران یہ مسئلہ مسلمانوں کی اصل توجہ کا مرکز بن گیا تھا وہیں اب لوگوں نے راست چیف منسٹر سے عوامی جلسہ میں سوال کرنا شروع کردیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ راست عوام کے سوال نے چیف منسٹر کو آپے سے باہر کردیا ہے اور انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے اپنی اصل ذہنیت اور سوچ کو آشکار کردیا ہے ۔ کاغذ نگر کے جلسہ میں جس طرح ایک سوال کرنے والے نوجوان پر کے سی آر بر س پڑے اور جس ناشائستہ زبان کا انہوں نے استعمال کیا ہے اس سے ان کی بوکھلاہٹ اور بھی واضح ہوگئی ہے ۔ ایک ریاست کے چیف منسٹر اور ایک برسر اقتدار جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے کے سی آر کا رویہ انتہائی ناشائستہ اور نازیبا رہا ہے اور انہوں نے جو زبان استعمال کی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ اس سے ریاست بھر کے مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی ہے ۔ پہلے ہی ریاست کے مسلمان تحفظات کے وعدہ کی عدم تکمیل ‘ انتخابات میں مسلم قائدین کو نظر انداز کرنے اور ٹکٹ نہ دینے سے ناراض تھے اور اب ان کے لب و لہجہ اور انتہائی غیر شائستہ زبان کے استعمال اور مخالف مسلم ذہنیت کے آشکار ہوجانے سے مسلمانوں کی ناراضگی شدید غم و غصہ میں بدل گئی ہے اور اس کا خمیازہ چندر شیکھر راو کو انتخابات میں بھگتنا پڑیگا اور اس کا پتہ 11 ڈسمبر کے نتائج میں چل جائیگا ۔ نہ صرف کے سی آر بلکہ مسلمانوں کی بے عزتی کے باوجود کے سی آر کے قصیدے پڑھنے والے ان کے حواریوں کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑیگی اور عوام کے سامنے انہیں بھی جواب دینا پڑیگا ۔ چیف منسٹر کے عہدہ پر کے سی آر کو دوبارہ فائز کرنے کے دعوے کرنے والے قائدین کو جو مسلمانوں کے رہنما ہونے کا دعوی کرتے ہوئے نہیں تھکتے انہیں اب مسلمانوں کی اس بے عزتیاور ہتک کئے جانے پر اپنے موقف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود انہیں جواب دینا چاہئے کہ آیا اس بے عزتی کے باوجود کیا کے سی آر کو چیف منسٹر بنایا جانا چاہئے ؟ ۔
انتخابی مہم کے دوران ان سیاسی قائدین کا غصہ ساتویں آسمان پر رہتاہے جن کو عوام کی ناراضگی اور برہمی کا سامنا کرنا پڑے ۔ کے سی آر کو مسلسل رپورٹس مل رہی تھیں کہ ان کے جلسے تقریبا ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے تقریبا ہر جلسے میں عوام کم اور خالی کرسیاں زیادہ دکھائی دے رہی تھیں۔ ان ناکام جلسوں کی وجہ سے کے سی آر بوکھلاہٹ کا شکار تھے ۔ اس بوکھلاہٹ کے نتیجہ میں کے سی آر اپنے آپے سے باہر ہوگئے اور سوال کرنے والوں کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جو ان کی مسلم مخالف ذہنیت کو آشکار کرتی ہے ۔ ساڑھے چار سال کے اقتدار میں کے سی آر نے مسلمانوںکو صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعہ خوش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے ساتھ حقیقت میںکوئی انصاف نہیں کیا گیا ۔ کوئی بڑی اسکیم مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے نہیں شروع کی گئی ۔ بجٹ صرف کاغذ پر بڑھایا گیا اس کو جاری نہیں کیا گیا ۔ اقلیتی اداروں کے عہدوں پر کوئی تقررات عمل میں نہیں لائے گئے ۔ روزگار فراہم نہیں کیا گیا ۔ اقلیتی مالیتی کارپوریشن سے قرضہ جات جاری نہیں کئے گئے ۔ ڈبل بیڈ روم مکانات میں انکا حصہ صفر ہی رہا ۔ اوور سیز اسکالرشپ اسکیم کی رقومات رکی ہوئی ہیں۔ اردو اکیڈیمی میں اسمبلی کی تحلیل سے صرف ایک دن قبل صدر نشین کا تقرر ہوا ۔ یہ سارے حالات ظاہر کرتے ہیں کہ کے سی آر مسلمانوں کو صرف خوش کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی ان کی سیاسی مجبوری ہے اور وہ حقیقت میں مسلمانوں کیلئے کچھ کرنا نہیں چاہتے اور ان کی ذہنیت کاغذ نگر میں آشکار ہوچکی ہے ۔
ریاست بھر کے مسلمانوں کو اور صحیح فکررکھنے والے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی کے سی آر کو اس ذہنیت اور زبان کیلئے سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی سے دوستی سے قبل کے سی آر بی جے پی کی زبان میں بات کرنے لگے ہیں۔ انہیں اندازہ ہوجانا چاہئے کہ ریاست کے مسلمان اس لب و لہجہ کو برداشت نہیںکرسکتا ۔ مسلمانوں کو اپنی اس ہتک کا جواب اپنے جمہوری حق ووٹ کے ذریعہ دینے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کے سی آر کو بتادیں کہ ہمدردی کرنے والوں کو اگر مسلمان حکمران بناسکتے ہیں تو بی جے پی کی زبان میں بات کرنے والوں کو حکومت سے محروم کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔